پاکستان

امتیازی سلوک کے الزامات سے مکرنے پر مجبور کیا گیا، ہندو رپورٹر

سرکاری خبررساں ایجنسی سے وابستہ صاحب خان کے مطابق ان کے باس نے انھیں دفترمیں 'کھانے پینے کے برتن الگ' کرنےکو کہا تھا۔
|

کراچی: سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو رپورٹر کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے وہ الزامات واپس لینے پر مجبور کیا جارہا ہے، جس میں ان کا کہنا تھا کہ انھیں مذہب کی بنیاد پر اپنے ساتھیوں کی جانب سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔

اے پی پی سے وابستہ گریڈ 3 رپورٹر صاحب خان نے اس سے قبل الزام لگایا تھا کہ جب ان کے ساتھیوں کو معلوم ہو کہ وہ ایک ہندو ہیں تو ان کے باس نے انھیں دفتر میں 'اپنے کھانے پینے کے برتن الگ ' کرنے کو کہا تھا۔

صاحب کے مطابق جوں ہی یہ واقعہ میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آیا، ان کے باس نے ان پر اس حوالے سے دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ وہ ان رپورٹس کو غلط قرار دیں۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے صاحب نے بتایا، 'بدھ کو انھوں نے (بیورو چیف نے) نے مجھے کئی گھنٹے تک اپنے آفس میں بٹھا کر مجھے اس بات کے لیے مجبور کیا کہ میں واقعے کے حوالے سے تمام میڈیا رپورٹس کو غلط قرار دوں'۔

انھوں نے بتایا کہ مجھ پر اس حوالے سے دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ میں یہ کہوں کہ مذکورہ واقعے کے حوالے سے میڈیا میں گردش کرنے والی تمام رپورٹس بے بنیاد ہیں، ان کا کہنا تھا کہ حتیٰ کہ مجھے یہ بھی کہا گیا کہ 'اگر تم انتہائی اقدامات اٹھا سکتے ہو، تو ہم بھی اٹھا سکتے ہیں'۔

صاحب نے اُس دن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ اپنے بیٹے کو کچھ ہفتے قبل دفتر لے کر آئے اور اپنے ساتھیوں سے اس کا تعارف کروایا کہ یہ میرا بیٹا راج کمار ہے، جس پر سب نے نہایت حیرانگی سے پوچھا کہ کیا میں ہندو ہوں۔

انھوں نے بتایا کہ اگلے ہی دن بیورو چیف نے مجھے ایک میٹنگ کے لیے بلوایا اور مجھ سے کہا کہ میں دفتر میں اپنے کھانے پینے کے برتن الگ کرلوں کیوں کہ دوسروں کو اس سے مسائل ہیں۔

دوسری جانب اے پی پی کے بیورو چیف پرویز اسلم نے ڈان کو کی گئی ایک ای میل میں ان تمام رپورٹس کو 'گمراہ کن' اور'بے بنیاد' قرار دیا۔

اسلم کا کہنا تھا کہ 'اے پی پی میں مذہب کے ساتھ ساتھ کسی بھی بنیاد پر اقلیتی برادری کے کسی بھی رکن سے کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا'۔

انھوں نے ان رپورٹس کو بھی مسترد کردیا کہ صاحب کو ان کے نام میں موجود 'خان' کی وجہ سے غلطی سے 'مسلمان' سمجھا گیا، ان کا کہنا تھا، 'حیقیقت یہ ہےکہ صاحب کے تمام ساتھیوں کو اس بات کا علم تھا کہ وہ ہندو ہیں لیکن ان کے ساتھ کبھی بھی امتیازی سلوک نہیں کیا گیا'۔

اسلم کا مزید کہنا تھا کہ اے پی پی کی انتظامیہ نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائیلر) کی جانب سے 'بدنیتی پر مبنی' ایک خط موصول ہونے کے بعد اس واقعے کی تحقیقات کیں اور اسے معلوم ہوا کہ تمام الزامات 'غیر سنجیدہ' ہیں۔

دوسری جانب صحافیوں کی تنظیموں نے صاحب خان کے ساتھ امتیازی سلوک کی مذمت کی۔

کراچی یونین آف جرنلسٹس (دستور) کے سیکریٹری شعیب خان نے اس واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کردیا، ان کا کہنا تھا، 'ہمارے بہت سے ہندو اور مسیحی ساتھی ہمارے ساتھ ایک ہی میز ہی کھاتے پیتے ہیں، لیکن اس حوالے سے کبی بھی کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا یا مسائل کھڑے نہیں کیے۔'

جبکہ کراچی یونین آف جرنلسٹس (برنا) کے سیکریٹری واجد رضا نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ذاتی طور پر اس واقعے کی تحقیقات کریں گے۔

یہ خبر یکم جولائی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔