نقطہ نظر

کیا آپ 14 ہزار روپے میں گھر چلا سکتے ہیں؟

پاکستان کی بارہ اعشاریہ سات فی صد آبادی سوا سو روپے روزانہ پر یعنی انتہائی غربت کے عالم میں گزارہ کرتی ہے۔

کافی عرصہ قبل پاکستان کے صفِ اول کے ماہرِ معاشیات قیصر بنگالی نے بتایا تھا کہ جب وہ غربت کا تحقیقی مطالعہ کر رہے تھے تو انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ غریب خاندانوں کے ماہانہ بجٹ میں سب سے زیادہ رقم چائے کی پتی اور چینی کے لیے مختص تھی۔

جب اس کا سبب پوچھا گیا تو جواب ملا: ’’چائے پینے کے بعد بھوک نہیں لگتی‘‘۔ میرا دل کٹ کے رہ گیا، غریب لوگ چائے اس لیے پیتے ہیں کیوںکہ تین وقت کھانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

یہ پتہ لگانا کافی مشکل ہوتا ہے کہ ایک خاص علاقے میں کتنے لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ مائیکرو فنانس رسک مینجمنٹ کے مارک شرائنر نے غربت کا اسکور کارڈ متعارف کروایا۔ مارک کا کہنا تھا کہ براہ راست اقدامات مہنگے پڑتے ہیں، ان پر وقت بھی زیادہ صرف ہوتا ہے اور ان کی تصدیق کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔

’’آپ نے گزشتہ ہفتے کتنی سبزیاں کھائی تھیں؟ ان کی قیمت کیا تھی‘‘ قسم کے سوالات پوچھ کر غربت کا اندازہ لگانے میں بہت وقت صرف ہوتا ہے۔ جبکہ بالواسطہ اسکورنگ میں قابل مشاہدہ اشاریوں کے ساتھ سوالات پوچھے جاتے ہیں۔

مثال کے طور پر: کیا آپ کے گھر کی چھت ٹین کی ہے؟ یا کیا آپ کے گھر میں لکڑیوں کے چولہے پر کھانا پکتا ہے؟ اس طرح کا سوالنامہ پُر کرنے میں بہت کم وقت صرف ہوتا ہے۔

پڑھیے: 6 کروڑ غریبوں کے ٹیکس چور سیاستدان

1990 میں عالمی بینک کے قائم کردہ معیار کے مطابق ایک ڈالر یومیہ سے کم میں گزارا کرنے والے افراد کو انتہائی غریب قرار دیا گیا تھا، جبکہ 2008 میں اس حد کو بڑھا کر سوا ڈالر یومیہ مقرر کیا گیا۔

غربت کے اس پیمانے پر لوگوں کو یہ اعتراض رہا ہے کہ اس میں صرف آمدنی اور اخراجات پر توجہ دی گئی ہے جبکہ غربت کے مسائل اور بھی ہیں جن میں خوراک، پینے کا صاف پانی، صحت و صفائی کی سہولیات، سر چھپانے کا ٹھکانہ، تعلیم اور سماجی خدمات تک رسائی بھی شامل ہے۔

عالمی بینک کی 2015 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی پچاس فی صد سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اب بین الاقوامی غربت کی لکیر دو ڈالر یا تقریباً 205 روپے یومیہ کی کمائی پر کھینچی جاتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی بارہ اعشاریہ سات فی صد آبادی سوا سو روپے روزانہ پر یعنی انتہائی غربت کے عالم میں گزارہ کرتی ہے۔

اس طرح کے پیمانے مقرر کرنے کا ایک نقصان یہ ہے کہ حکومتوں کی ساری توجہ اقتصادی نمو ترقی پر مرکوز رہتی ہے، اور سماجی عدم مساوات یعنی امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق اور ماحولیات پر ان پالیسیوں کے مضرت رساں اثرات پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

1960 کی دہائی کے وسط میں امریکا کی ایک ماہر اقتصادیات مولی اورشینسکی نے اندازہ لگایا تھا کہ ایک اوسط گھرانہ اپنے بجٹ کا ایک تہائی حصہ خوراک پر خرچ کرتا ہے، چنانچہ انہوں نے غربت کی لکیر بنیادی غذائی ضروریات کی قیمت سے تین گنا زیادہ رقم پر مقرر کی۔

اب اگر پاکستان کے تناظر میں دیکھیں، تو یہاں پر کروڑوں بچے اسکول سے باہر اس لیے ہیں، کیونکہ ان کے والدین ان کے لیے یا تو خوراک پوری کر سکتے ہیں، یا تعلیم، اور بہرحال خوراک اولین ضرورت ہے، اس لیے تعلیم کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔

پڑھیے: مرغیوں کے ذریعے غربت ختم ہوسکتی ہے؟

یہ ہماری کمزور معاشی پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے ہمارے عوام اپنے بنیادی حقوق پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہیں۔

چند روز قبل پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کے ایک پروگرام میں شرکت کا اتفاق ہوا تو انہوں نے پانچ افراد پر مشتمل ایک غیر ہنر مند مزدور گھرانے کا بجٹ تھما دیا۔ اس میں 1970 ،1990، 2000، 2012، 2014 اور 2016 کی گھریلو استعمال کی اشیا کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ لیا گیا تھا۔

پانچ افراد پر مشتمل گھرانے کو ہر ماہ پچاس کلو آٹا درکار ہوتا ہے۔ 1970 میں اتنا آٹا ساڑھے بائیس روپے میں آتا تھا، اب پچاس کلو آٹے کی قیمت 1775 روپے ہو چکی ہے۔ یہ گھرانہ ہر ماہ دس کلو موٹے چاول خریدتا ہے۔ 1970 میں یہ چاول ایک روپیہ فی کلو آتے تھے، اب 527 روپے کے دس کلو ملتے ہیں۔

1970 میں چھے کلو دالیں ساڑھے سات روپے کی آتی تھیں ۔اب 792 روپے 86 پیسوں کی آتی ہیں۔ چھے کلو سبزیوں کی اوسط قیمت ساڑھے سات روپے تھی، اب 120 روپے ہو گئی ہے۔

قصہ مختصر 2016 میں پانچ افراد پر مشتمل مزدور گھرانے کو کھانے پینے کی اشیا پر 11,983.87 روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ گھر داری کے دیگر خرچوں میں جمعدار کی تنخواہ، بجلی کا بل، برتن، علاج معالجہ، سماجی اور مذہبی تقریبات اور تعلیمی مواد پر 11,600 روپے کا خرچہ آتا ہے۔

ٹرانسپورٹ کے اخراجات 1800 روپے اور گھر کا کرایہ 6500 روپے دینا ہوتا ہے۔ متفرق اخراجات میں حجام، بالوں کا تیل، سگریٹ، ماچس کی بارہ ڈبیاں، ایک کلو دھلائی کا صابن، چوڑیاں، سرمہ، کنگھی، میک اپ کا سامان، پھل اور بچوں کے لیے مٹھائی اور نہانے کے صابن کی خریداری پر 2282 روپے خرچ ہوتے ہیں۔

ایک سال میں گرمیوں کے کپڑوں پر اوسطا 17,950 روپے خرچ ہوتے ہیں, دو سال میں ایک مرتبہ سردی کے کپڑے بنانے پر 5000 روپے خرچ ہوتے ہیں۔ چپلوں اور جوتوں کی خریداری کا اوسط سالانہ خرچہ 4300 روپے، دو سال میں ایک مرتبہ چادریں، رضائیاں، تکیے، تولیوں پر 5800 روپے خرچ ہوتے ہے۔

گویا ایک غیر ہنر مند مزدور کو اپنی بیوی اور تین بچوں (پانچ افراد پر مشتمل گھرانے) کا پیٹ پالنے کے لیے ہر ماہ لگ بھگ 36,500 روپے درکار ہیں جبکہ ہماری حکومت نے کم از کم اجرت صرف 14,000 روپے مقرر کر رکھی ہے۔

پڑھیے: بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہندوستانی سسٹم سے کتنا بہتر؟

اسی لیے اب کم سے کم اجرت کے بجائے لیونگ ویج، یعنی اتنی اجرت کا مطالبہ کیا جاتا ہے جس کی بدولت کم سے کم خرچے میں باعزت و معیاری زندگی کو برقرار رکھا جا سکے۔

ذرا سوچیے بارہ یا چودہ ہزار میں ایک گھرانے کا گزارہ کیسے ہوتا ہوگا۔ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے 31.6 فی صد بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر کے ایک ہزار بچوں میں سے چھیاسی بچے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب کہ پاکستان کی مجموعی لیبر فورس میں بے روزگاری کی شرح پانچ فی صد ہے۔

ایک دفعہ ایک ڈاکٹر کا مضمون نظر سے گزرا تھا۔ ان کا کلینک ایک غریب بستی میں تھا، جب بھی کوئی مریض اس کے پاس لایا جاتا اور ڈاکٹر نسخہ لکھنے لگتا تو لواحقین کا اصرار ہوتا تھا کہ ''ڈاکٹر صاحب، اس کے لیے پھل لکھ دیں۔''

بہت عرصہ بعد ڈاکٹر کی سمجھ میں آیا کہ وہ لوگ پھل خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے اور مریض کو ڈاکٹری نسخے کے مطابق دوا کے طور پر ہی پھل کھانے کا موقع ملتا تھا۔

ہزار، دو ہزار گز کے بنگلوں میں رہنے والے وزراء نے کبھی ان لوگوں کے بارے میں سوچا؟ کیا پاکستان کے ایک فلاحی ریاست کا خواب کبھی شرمندہء تعبیر ہو پائے گا؟

مہناز رحمان

مہناز رحمان عورت فاؤنڈیشن کی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔