سانحہ صفورا،سبین محمود کیس: مجرمان نے سزا چیلنج کردی
اسلام آباد: صفورا گوٹھ حملے اور سبین محمود قتل کیسز میں سزائے موت پانے والے 5 مجرموں نے اپنی سزاؤں کو ملٹری اپیل کورٹ میں چیلنج کردیا۔
یاد رہے کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے 12 مئی کو اپنے بیان میں 5 دہشت گردوں طاہر منہاس، سعد عزیز، اسد الرحمٰن، محمد اظفر عشرت اور حافظ ناصر احمد کو دہشت گردی کے 9 مقدمات میں سزائے موت سنائے جانے کی تصدیق کی تھی۔
ان میں صفورا گوٹھ حملہ اور سبین محمود کے قتل کے مقدمات بھی شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ صفورا: 4 اعلیٰ تعلیم یافتہ ملزمان گرفتار
عدالتی کارروائی کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ طاہر منہاس 13 مئی 2015 کو کراچی کے علاقے صفورا گوٹھ میں ایک بس پر ہونے والے حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا جس میں اسماعیلی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 47 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سینئر وکیل حشمت علی حبیب نے اب ان 5 مجرمان کی سزاؤں کے خلاف اپیل دائر کی ہے، انہوں نے بتایا کہ عدالت نے اپیلوں پر کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔
اپیل میں پانچوں سزا یافتگان کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے ان کے مقدمات کو فوجی عدالت منتقل کرتے ہوئے اُس طریقہ کار پر عمل نہیں کیا جو تحفظ پاکستان ایکٹ میں درج ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سانحہ صفورا کیس فوجی عدالت منتقل
اپیل میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ، 'وزیرا علیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیراعظم نواز شریف کے بیانات اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا سراہنا اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملزمان 20 مئی2015 سے قبل ہی پولیس کی تحویل میں تھے'، جب پولیس نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی تو کہا کہ انہیں فائرنگ کے تبادلے کے بعد گرفتار کیا گیا۔
اپیل میں الزام عائد کیا گیا کہ فوجی حکام نے ملزمان کو اپنی پسند کے وکیل مقرر کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا اور ایسے ماحول میں ہونے والا ٹرائل آئین کے آرٹیکل 10 (اے) کی روح کے خلاف ہے جو شفاف ٹرائل کو یقینی بناتا ہے۔
اپیل میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مقدمے کے دوران عدالت تذبذب کا شکار رہی اور شواہد کا جائزہ لینے کے بجائے اس نے استغاثہ کی بتائی ہوئی کہانی پر یقین کرلیا ۔
مزید پڑھیں:'بڑے دہشت گرد حملوں میں تعلیم یافتہ عسکریت پسند ملوث'
اپیل میں سانحہ صفورا اور سبین محمود قتل کیس کے حوالے سے تشکیل دی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے الزام عائد کیا گیا کہ عدالت کی کارروائی سیاسی مقاصد کے لیے گھڑی گئی کہانی کو بنیاد بناکر چلائی گئی۔
ملٹری کورٹ آف اپیل نے ابتدائی دلائل سننے کے بعد کیس کی سماعت جولائی کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔
تحقیقات میں سامنے آنے والے حقائق
وفاقی حکومت نے رواں سال مارچ میں مذکورہ 2 مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے لیے فوجی حکام کو بھیجے۔
تحقیقات کے مطابق صفورا حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ طاہر منہاس نے اسماعیلی کمیونٹی کے ارکان کو اس لیے قتل کیا تاکہ وہ شدت پسند تنظیم داعش کی قیادت کو متاثر کرسکے اور اس عالمی دہشت گرد تنظیم میں اہم مقام حاصل کرسکے۔
تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ طاہر منہاس مقامی دہشت گردوں پر مشتمل اپنا نیٹ ورک بھی چلا رہا تھا، وہ طالبان کے باہمی اختلافات سے تنگ آچکا تھا اور داعش سے وابستہ ہونا چاہتا تھا۔
مزید پڑھیں:سانحہ صفورا: پانچوں مجرموں کے ڈیتھ وارنٹ جاری
اس مقصد کے لیے اس نے داعش کی مقامی قیادت سے رابطہ کیا، اس کا برادر نسبتی عمر عرف جلال بھی کراچی میں القاعدہ نیٹ ورک کا ایک گروہ چلارہا تھا۔
منہاس نے جلال کو بھی داعش میں شمولیت کا مشورہ دیا لیکن جلال نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ اس نے اسامہ بن لادن کے ہاتھوں اطاعت کی قسم کھائی تھی، تاہم منہاس داعش میں شمولیت کے لیے کوششیں کرتا رہا۔
تحقیقات کے مطابق 2014 میں داعش نے اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا اور اس کے ترجمان ابو محمد العدانی نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں خراسان صوبے کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا اور فاٹا کی اورکزئی ایجنسی میں طالبان کے سابق امیر حافظ سعید خان کو امیر مقرر کیا گیا۔
منہاس نے حافظ سعید خان سے رابطہ کیا اور داعش کی اطاعت قبول کرلی، اسے کراچی میں داعش کا امیر بھی مقرر کردیا گیا۔
دوسری جانب سعد عزیز نے تحقیقاتی ایجنسی کو بتایا کہ 2014 اور 2015 کے آغاز میں انہوں نے کراچی کے مختلف علاقوں میں داعش کی وال چاکنگ کا منصوبہ بنایا۔
مزید پڑھیں:سبین محمود سپرد خاک، قتل کا مقدمہ درج،امریکا کی مذمت
اس مقصد کے لیے دو ٹیمیں تشکیل دی گئیں، ایک کا کام وال چاکنگ کرنا جبکہ دوسری ٹیم کا کام انہیں تحفظ فراہم کرنا تھا۔
انہوں نے بہادرآباد، مرکنٹائل سوسائٹی، کشمیر روڈ، حسن اسکوائر اور غریب آباد انڈر پاس پر داعش کے نعرے درج کردیئے۔
تحقیقات کے مطابق 2002 میں بھی سعد بلوچستان سے ہوتے ہوئے 3 ماہ کی تربیت حاصل کرنے افغانستان گیا تھا، افغانستان میں اپنے قیام کے دوران اس نے اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری، ابویحیٰ اور حمزہ المصری سے صوبہ ہلمند میں ملاقاتیں کیں۔
منہاس نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ 2011 سے جلال اسے اور اسے کے ساتھیوں کو فنڈز فراہم کررہا تھا اور ہر فرد کو 30 ہزار روپے ماہانہ ادا کرتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:آئی بی اے گریجویٹ سے 'عسکریت پسند' تک؟
اس نے مزید بتایا کہ جلال کو سعودی عرب، بحرین اور کویت سے فنڈز ملتے تھے، اس کا کام القاعدہ نیٹ ورک سے وابستہ ارکان کو ان کے ملک سے پاکستان لانا، پھر انہیں افغانستان بھیجنا اور پھر بحفاظت ان کی اپنے وطن واپسی کا بندوبست کرنا تھا۔
جب یہ ارکان اپنے ملک واپس پہنچ جاتے تو وہاں سے جلال کو بھاری رقم ادا کرتے، جلال عربی روانی سے بولتا تھا اس لیے وہ القاعدہ کے عرب ارکان سے بھی براہ راست رابطے میں تھا۔
تحقیقات کے مطابق منہاس نے دعویٰ کیا کہ رمزی یوسف کا بھائی حاجی بلوچ بھی رقم فراہم کرنے والوں میں سے ایک تھا، حاجی بلوچ کے بیٹے انور نے بیرون ملک سے کم سے کم 8 کروڑ روپے اکھٹے کیے اور ان میں سے ایک کروڑ روپے وزیرستان بھیجے۔
واضح رہے کہ رمزی یوسف 1993 میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر بم دھماکے کے مرکزی منصوبہ سازوں میں سے ایک تھا، اس کے ماموں القاعدہ کے سینئر رہنما خالد شیخ محمد پر بھی نیویارک اور واشنگٹن میں 11 ستمبر 2001 کو ہونے والے حملوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد ہے۔
یہ خبر 30 جون 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔