انھوں نے بتایا، ’طالبان کو کرکٹ کا شوق تھا۔ ورلڈ کپ کے دوران جب پاکستان، جنوبی افریقا کے خلاف میچ کھیل رہا تھا تو میں نے اپنے اغوا کاروں سے درخواست کی کہ مجھے میچ دیکھنے دیں۔ انھوں نے ٹی وی تو نہیں لیکن ریڈیو کا بندوبست کر دیا۔ کمرے کے اندر سگنل صاف نہیں آ رہے تھے لہٰذا میں ریڈیو اور سلیپنگ بیگ لے کر باہر آگیا۔ پھر وہ میچ میں نے برفباری کے دوران سنا اور جب پاکستان جیت گیا تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔‘
یہ بھی پڑھیں:'علی حیدر گیلانی ازبک طالبان کے پاس ہیں'
قید کے دوران بری خبر علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ قید کے دوران جب انھوں نے اپنے ایک کزن کی حج کے دوران سانحہ منیٰ میں ہلاکت کی خبر سنی تو یہ ان کے لیے بہت برا وقت تھا۔
افغانستان کب منتقل کیا گیا؟ علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ انھیں پاکستان فوج کی جانب سے دتہ خیل اور شوال میں کارروائی کے آغاز کے بعد رواں برس فروری میں افغانستان منتقل کر دیا گیا، جہاں انھیں دو تین مقامات پر رکھا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ وہ جنگی علاقے میں تھے، جہاں ڈرون اور پاکستان فضائیہ کے حملے ہوتے رہتے تھے۔
علی گیلانی کے مطابق ’جب بمباری شروع ہوتی تھی تو وہ ہمیں لے کر باہر کھلے علاقے میں چلے جاتے تھے۔ میں نے 2 سو گز کے فاصلے سے جیٹ طیارے کا حملہ دیکھا ہے۔ پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کی ہلاکت کے بعد میں نے پاکستانی فضائیہ کی دتہ خیل پر بمباری دیکھی تھی۔'
انھوں نے بتایا کہ ان کارروائیوں میں فوج کی جانب سے نشانہ تو ٹھیک لگایا جاتا تھا لیکن ان گھروں میں اکثر کوئی نہیں ہوتا تھا، کیونکہ شدت پسند پہلے ہی نکل جاتے تھے۔
قید کے دوران اہلخانہ سے رابطہ اہلخانہ سے رابطوں کے حوالے سے علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ اغواء کاروں نے 2 سال میں صرف 2 مرتبہ والدہ اور والد سے افغان موبائل سم کے ذریعے ان کی گھر پر بات کروائی تھی۔
علی گیلانی نے بتایا کہ 'انہوں نے میری کئی ویڈیوز بھی بنائی لیکن جاری 2 ہی کیں جن میں میں حکومت اور اپنے خاندان سے ان کی بات سننے کو کہتا تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ اغواء کاروں کے مطالبات غیرحقیقی تھے، وہ امریکی فوج کے افغانستان سے مکمل انخلا، قیدیوں کی رہائی اور رقم کا تقاضہ کرتے تھے، لیکن پیسہ ان کے لیے کبھی مسئلہ نہیں رہا۔
علی گیلانی نے بتایا کہ اغوا کار انھیں کہتے تھے کہ 'اگر ان کی رہائی کے لیے کوئی فوجی کارروائی ہوئی تو سب سے پہلے وہ خود انھیں گولی مار دیں گے۔'
بازیابی کا دن انٹرویو کے دوران اپنی بازیابی کے لیے کیے گئے آپریشن کا ذکر کرتے ہوئے علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ 9 مئی کو وہ بہت افسردہ تھے کہ شام کو القاعدہ کا ایک رکن آیا اور کہا کہ آج چھاپہ پڑے گا۔
انھوں نے بتایا کہ نماز عشاء کے بعد وہ مجھے مکان سے باہر لے گئے۔ اور میرے اندازے کے مطابق وہ مجھے پاکستان کی جانب لے جانے لگے کہ اتنے میں 2 امریکی شنوک ہیلی کاپٹر اور شاید دو بغیر آواز والے کوبرا ہیلی کاپٹروں نے ہم پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر پہلے تو اغوا کار نے کہا کہ لیٹ جاؤ اور پھر کہا بھاگو۔
انھوں نے بتایا، ’میں اغوا کاروں کے ساتھ بھاگنے کی بجائے دوسری سمت میں دوڑا۔ (اس دوران) تین چار فائر ہوئے۔ مجھے یقین تھا کہ میں بھی مارا جاؤں گا۔'
تصاویر دیکھیں:علی حیدر گیلانی کی ملتان آمد
انھوں نے بتایا کہ القاعدہ کے اغوا کار کے مرنے کے بعد امریکیوں نے مجھ سے پشتو میں کچھ کہا۔ میں نے چیخ کر جواب دیا انگلش تو انہوں نے مجھے قمیض اتارنے اور ہاتھ اوپر کرنے کی ہدایات دیں۔ پھر ایک امریکی فوجی آیا اور اس نے میرے ہاتھ پیچھے باندھ دیئے۔
علی گیلانی کے مطابق میں نے مذکورہ فوجی سے اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ میں پاکستان کے سابق وزیراعظم کا بیٹا علی حیدر گیلانی ہوں تو وہ بہت حیران ہوا۔
انھوں نے بتایا کہ پھر اس فوجی نے اپنے ہیڈکوارٹر سے رابطہ کیا اور چند ہی منٹوں میں تصدیق ہونے کے بعد مجھ سے کہا، ’مسٹر گیلانی یو آر گوئنگ ہوم' (مسٹر گیلانی آپ گھر جارہے ہیں)۔