پاکستان

'القاعدہ نے الظواہری کی رشتہ دارخواتین کی رہائی کیلئےاغواء کیا'

3 سال تک القاعدہ کے قبضے میں رہا، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کا بی بی سی کو خصوصی انٹرویو

کراچی: سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے گذشتہ ماہ افغانستان سے بازیاب ہونے والے بیٹے علی حیدر گیلانی نے انکشاف کیا ہے کہ وہ 3 سال تک القاعدہ کے قبضے میں رہے جو ان کے ذریعے ایمن الظواہری کے خاندان کی چند خواتین کو رہا کروانی چاہتی تھی۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں علی حیدر گیلانی نے اپنی 3 سالہ قید کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔

بی بی سی کے مطابق علی حیدر گیلانی کا کہنا تھا کہ وہ 3 سال تک القاعدہ کے قبضے میں رہے اور کراچی سے تعلق رکھنے والا القاعدہ کا ایک اہم رکن ضیاء ان کے ساتھ 3 سال تک رہا۔

کابل سے لاہور پہنچنے کے بعد علی حیدر گیلانی کی اپنے اہلخانہ کے ہمراہ پہلی سیلفی—۔

ان کا کہنا تھا، 'القاعدہ میرے بدلے ڈاکٹر ایمن الظواہری کے خاندان کی چند قید خواتین کی رہائی اور بھاری رقم کا تقاضا کر رہی تھی۔‘

مزید پڑھیں:علی حیدرگیلانی افغانستان سے بازیاب

یاد رہے کہ علی حیدر گیلانی کو 9 مئی 2013 کو عام انتخابات سے 2 روز قبل ملتان سے اغواء کیا گیا تھا، جنھیں گذشتہ ماہ 10 مئی کو افغان اور امریکی فورسز نے مشترکہ آپریشن کے ذریعے افغان صوبے پکتیکا سے بازیاب کروایا تھا۔

'اغواء سے قبل کوئی دھمکی نہیں ملی تھی'

انٹرویو کے دوران علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ اغواء سے قبل انھیں کوئی دھمکی نہیں ملی تھی تاہم انھیں اس حوالے سے کچھ دوست احباب نے مطلع کیا تھا کہ ان کا پیچھا کیا جارہا ہے۔

انھوں نے بتایا، ’اغواء سے ایک ہفتہ قبل ایک دوست نے بتایا تھا کہ ایک گاڑی آپ کا پیچھا کر رہی تھی'۔

مزید پڑھیں:علی حیدر گیلانی کابل سے پاکستان پہنچ گئے

علی گیلانی نے بتایا کہ وہ اپنی سکیورٹی سے مطمئن تھے اور دوسری جانب انتخابی کمیشن کے ضابطۂ اخلاق کے مطابق ہتھیاروں کی نمائش پر پابندی کے باعث ان کے محافظوں نے اپنے ہتھیار بھی گاڑی میں چھوڑ دیئے تھے۔

اغواء کی روداد

انٹرویو کے دوران اپنے اغوا کی تفصیلات بتاتے ہوئے علی گیلانی نے کہا کہ ملتان میں ایک جلسے کے بعد جب وہ اپنے 2 محافظوں کے ساتھ باہر نکلے تو کسی نے ان کو گردن سے پکڑ کر زور سے دھکا دیا اور وہ زمین پر گر گئے۔

انھوں نے بتایا، ' پھر میں نے گولیوں کی آواز سنی اور اپنے دونوں محافظوں کو گرتے دیکھا۔ میں زمین پر لیٹا ہوا تھا کہ انھوں (اغواء کاروں) نے بندوق میرے سر پر دے ماری اور میرا سر پھٹ گیا۔ مجھے اس وقت لگا کہ شاید (یہ لوگ مجھے) مارنے آئے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیں:'علی حیدر گیلانی کو ہولی وڈ فلم کی پیشکش'

علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ انھیں اغواء کرنے والے 6 لوگ تھے، جنھوں نے ان کو گاڑی میں ڈالا اور جاسوسی کے آلات کے خوف سے ان کے کپڑے اور جوتے اتار کر باہر پھینک دیئے۔

سابق وزیراعظم کے بیٹے نے بتایا کہ اغواء کاروں نے ان کی آنکھوں پر پٹی نہیں باندھی تھی، وہ انہیں دیکھ سکتے تھے، لیکن اب انھیں ان کے چہرے یاد نہیں۔

علی حیدرگیلانی کی بازیابی کے بعد پاکستان آمد—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی

انھوں نے بتایا کہ وہ سب پنجابی زبان میں باتیں کر رہے تھے۔ پھر انھیں خاموش رہنے کے لیے کہا گیا اور دوسری صورت میں گولی مارنے کی دھمکی دی گئی، جس کے بعد گاڑی کارخ ملتان سے خانیوال روڈ کی طرف کردیا گیا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ 2 اغواء کار بعدازاں خانیوال میں اتر گئے اور گاڑی فیصل آباد کی جانب رواں دواں ہوگئی۔

علی گیلانی کے مطابق اغواء کاروں نے اس موقع پر اپنا تعارف القاعدہ ارکان کی حیثیت سے کروایا اور بتایا کہ یوسف رضا گیلانی کا بیٹا ہونے کی وجہ سے انھیں اغواء کیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ اغواء کاروں نے کہا، 'آپ کے والد کے دور میں اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد کے علاوہ سوات اور وزیرستان میں کارروائیاں ہوئیں۔ آپ ہمارے دشمن ہیں!‘

فیصل آباد میں قید کے حوالے سے علی گیلانی نے بتایا کہ انھیں وہاں ڈھائی ماہ تک ایک مکان میں زنجیروں میں باندھ کر رکھا جاتا تھا، جہاں آنے والے ایک اخبار کے ذریعے انھیں علم ہوا کہ یہ فیصل آباد ہے۔

علی گیلانی نے بتایا کہ فیصل آباد میں کچھ دن رکھنے کے بعد انھیں وزیرستان منتقل کردیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ اغواء کار انھیں اور 2 اور لوگوں کو برقع پہنا کر 22 جولائی 2013 کو ایک گاڑی میں براستہ موٹروے بنوں سے وزیرستان لے گئے۔ اس دوران راستے میں 10 فوجی چوکیاں آئیں اور ایک دو چوکیوں پر شناخت کے لیے روکا گیا لیکن صرف ڈرائیور کا شناختی کارڈ دیکھ کر چھوڑ دیا گیا۔

علی گیلانی کے مطابق شمالی وزیرستان میں ڈانڈے درپہ خیل میں انھیں 7 ماہ تک رکھا گیا، جہاں سب لوگ پنجابی بولنے والے تھے جبکہ ایک مغوی جرمن شہری تھا جسے ملتان سے اغواء کیا گیا تھا۔

'اغواء کاروں نے تشدد نہیں کیا'

انٹرویو کے دوران علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ انھیں جسمانی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا، لیکن وہ ذہنی دباؤ کا شکار رہتے تھے۔

طالبان کے حوالے کب کیا گیا؟

علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل میں ایک ڈرون حملوں میں القاعدہ برصغیر کے رہنما اور لاہور سے اغوا کیے گئے امریکی شہری ڈاکٹر وارن وائن سٹائن کی ہلاکت کے بعد انھیں طالبان کے حوالے کر دیا گیا، جو انھیں شوال لے گئے۔

یہ بھی پڑھیں:’امریکی مغوی کی ہلاکت سے ڈرون حملوں کے خطرات سامنے آ گئے ‘

انھوں نے بتایا کہ 'یہ سجنا گروپ تھا جن کے پاس میں نے 14 ماہ گزارے۔ تاریخ، دن اور ماہ مجھے اس لیے آج بھی یاد ہیں کہ میں تواتر سے ڈائری لکھتا تھا جو وہ باقاعدگی سے جلا دیتے تھے۔ انھوں نے مجھے پڑھنے کے لیے کتابیں بھی دی تھیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ قید کے ان 14 ماہ کے دوران انھوں نے آسمان نہیں دیکھا۔ 'کمرے میں ایک بلب 24 گھنٹے جلتا رہتا تھا اور قدرتی روشنی ناپید تھی۔ میں نے ایک دن تنگ آ کر اغوا کاروں سے کہا کہ کم از کم یہ بلب رات کے وقت تو بند کر دیا کرو تاکہ مجھے دن اور رات کا کوئی تو اندازہ ہو۔‘

''طالبان کو کرکٹ کا شوق تھا'

انٹرویو کے دوران علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ قید کے دوران باہر کی دنیا سے رابطہ کرنے کے لیے انھیں جو بھی موقع ملا انھوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

انھوں نے بتایا، ’طالبان کو کرکٹ کا شوق تھا۔ ورلڈ کپ کے دوران جب پاکستان، جنوبی افریقا کے خلاف میچ کھیل رہا تھا تو میں نے اپنے اغوا کاروں سے درخواست کی کہ مجھے میچ دیکھنے دیں۔ انھوں نے ٹی وی تو نہیں لیکن ریڈیو کا بندوبست کر دیا۔ کمرے کے اندر سگنل صاف نہیں آ رہے تھے لہٰذا میں ریڈیو اور سلیپنگ بیگ لے کر باہر آگیا۔ پھر وہ میچ میں نے برفباری کے دوران سنا اور جب پاکستان جیت گیا تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔‘

یہ بھی پڑھیں:'علی حیدر گیلانی ازبک طالبان کے پاس ہیں'

قید کے دوران بری خبر

علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ قید کے دوران جب انھوں نے اپنے ایک کزن کی حج کے دوران سانحہ منیٰ میں ہلاکت کی خبر سنی تو یہ ان کے لیے بہت برا وقت تھا۔

افغانستان کب منتقل کیا گیا؟

علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ انھیں پاکستان فوج کی جانب سے دتہ خیل اور شوال میں کارروائی کے آغاز کے بعد رواں برس فروری میں افغانستان منتقل کر دیا گیا، جہاں انھیں دو تین مقامات پر رکھا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ وہ جنگی علاقے میں تھے، جہاں ڈرون اور پاکستان فضائیہ کے حملے ہوتے رہتے تھے۔

علی گیلانی کے مطابق ’جب بمباری شروع ہوتی تھی تو وہ ہمیں لے کر باہر کھلے علاقے میں چلے جاتے تھے۔ میں نے 2 سو گز کے فاصلے سے جیٹ طیارے کا حملہ دیکھا ہے۔ پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کی ہلاکت کے بعد میں نے پاکستانی فضائیہ کی دتہ خیل پر بمباری دیکھی تھی۔'

انھوں نے بتایا کہ ان کارروائیوں میں فوج کی جانب سے نشانہ تو ٹھیک لگایا جاتا تھا لیکن ان گھروں میں اکثر کوئی نہیں ہوتا تھا، کیونکہ شدت پسند پہلے ہی نکل جاتے تھے۔

قید کے دوران اہلخانہ سے رابطہ

اہلخانہ سے رابطوں کے حوالے سے علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ اغواء کاروں نے 2 سال میں صرف 2 مرتبہ والدہ اور والد سے افغان موبائل سم کے ذریعے ان کی گھر پر بات کروائی تھی۔

علی گیلانی نے بتایا کہ 'انہوں نے میری کئی ویڈیوز بھی بنائی لیکن جاری 2 ہی کیں جن میں میں حکومت اور اپنے خاندان سے ان کی بات سننے کو کہتا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ اغواء کاروں کے مطالبات غیرحقیقی تھے، وہ امریکی فوج کے افغانستان سے مکمل انخلا، قیدیوں کی رہائی اور رقم کا تقاضہ کرتے تھے، لیکن پیسہ ان کے لیے کبھی مسئلہ نہیں رہا۔

علی گیلانی نے بتایا کہ اغوا کار انھیں کہتے تھے کہ 'اگر ان کی رہائی کے لیے کوئی فوجی کارروائی ہوئی تو سب سے پہلے وہ خود انھیں گولی مار دیں گے۔'

بازیابی کا دن

انٹرویو کے دوران اپنی بازیابی کے لیے کیے گئے آپریشن کا ذکر کرتے ہوئے علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ 9 مئی کو وہ بہت افسردہ تھے کہ شام کو القاعدہ کا ایک رکن آیا اور کہا کہ آج چھاپہ پڑے گا۔

انھوں نے بتایا کہ نماز عشاء کے بعد وہ مجھے مکان سے باہر لے گئے۔ اور میرے اندازے کے مطابق وہ مجھے پاکستان کی جانب لے جانے لگے کہ اتنے میں 2 امریکی شنوک ہیلی کاپٹر اور شاید دو بغیر آواز والے کوبرا ہیلی کاپٹروں نے ہم پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر پہلے تو اغوا کار نے کہا کہ لیٹ جاؤ اور پھر کہا بھاگو۔

انھوں نے بتایا، ’میں اغوا کاروں کے ساتھ بھاگنے کی بجائے دوسری سمت میں دوڑا۔ (اس دوران) تین چار فائر ہوئے۔ مجھے یقین تھا کہ میں بھی مارا جاؤں گا۔'

تصاویر دیکھیں:علی حیدر گیلانی کی ملتان آمد

انھوں نے بتایا کہ القاعدہ کے اغوا کار کے مرنے کے بعد امریکیوں نے مجھ سے پشتو میں کچھ کہا۔ میں نے چیخ کر جواب دیا انگلش تو انہوں نے مجھے قمیض اتارنے اور ہاتھ اوپر کرنے کی ہدایات دیں۔ پھر ایک امریکی فوجی آیا اور اس نے میرے ہاتھ پیچھے باندھ دیئے۔

علی گیلانی کے مطابق میں نے مذکورہ فوجی سے اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ میں پاکستان کے سابق وزیراعظم کا بیٹا علی حیدر گیلانی ہوں تو وہ بہت حیران ہوا۔

انھوں نے بتایا کہ پھر اس فوجی نے اپنے ہیڈکوارٹر سے رابطہ کیا اور چند ہی منٹوں میں تصدیق ہونے کے بعد مجھ سے کہا، ’مسٹر گیلانی یو آر گوئنگ ہوم' (مسٹر گیلانی آپ گھر جارہے ہیں)۔

بازیابی کے بعد پاکستان پہنچنے پر علی حیدر گیلانی کا پرجوش استقبال کیا گیا تھا—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔