حکومتی شخصیات کس کے خرچے پر لندن گئیں؟
اسلام آباد: حکومتی وزراء اور وزیر اعظم کے اہلخانہ کا کہنا کہ وزیر اعظم نواز شریف اوپن ہارٹ سرجری کے بعد تیزی سے صحتیاب ہورہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے وزیراعظم نے لندن میں آپریشن کے بعد پہلی بار مکمل طبی معائنہ کروایا ہے اور آئندہ ہفتے دوبارہ تفصیلی معائنہ کے بعد ان کی وطن واپسی کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
اسی دوران وزیراعظم نواز شریف ہائیڈ پارک میں چہل قدمی کرتے ہوئے نظر آئے اور کئی اعلیٰ افسران نے ان کے پارک لین اپارٹمنٹ میں ان کی عیادت کی۔
سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی وزیر اعظم سے ملاقات کی جب کہ اس سے قبل برطانوی شہزادہ چارلس بھی وزیر اعظم نواز شریف کی عیادت کرنے ان کے گھر پہنچے۔
وزیر اعظم اوپن ہارٹ سرجری کے باوجود ملکی انتظامی امور سبنھال رہے ہیں اور ضروری کاغذات کا جائزہ اور ان کی منظور بھی دے رہے ہیں۔
بدھ کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ وزیر اعظم نے سرجری سے قبل ہی آئندہ مالی سال کے لئے وفاقی بجٹ کی منظوری دے دی تھی۔
اس سے قبل وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ وہ ان کے بیرون ملک علاج پر تنقید کرنے والوں کو خاموش کروانے کے لیے ذاتی خرچے پر میڈیکل بلز جمع کروائیں گے۔
تاہم، اس حوالے سے پچھلے ہفتے کچھ نئے اخراجات کی وجہ سے بعض نئے سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'وزیراعظم کی منگل کو اوپن ہارٹ سرجری ہوگی
حکومتی وزراء کے لندن کے دوروں کے اخراجات کون برداشت کر رہا ہے؟
گزشتہ ہفتے ہمیں بتایا گیا کہ وزیر اعظم نے وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کے ساتھ وزیر خارجہ کے معاون خصوصی طارق فاطمی کو لندن طلب کیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق دونوں شخصیات کو وزیر اعظم نے قومی معاملات پر بریفنگ کے لیے لندن بلایا تھا۔ اس سے قبل وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی لندن کا دورہ کر چکے ہیں۔
ایوان وزیراعظم سے قریبی ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کے سیکرٹری فواد حسن فواد بھی وزیر اعظم سے اہم امور پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک سے زائد مرتبہ لندن گئے۔
اس کے علاوہ کئی حکومتی شخصیات گزشتہ ایک ماہ کے دوران لندن کا دورہ کرچکی ہیں۔
معلوم کرنے پر یہ بات سامنے آئی کہ تمام وفاقی وزراء کے لندن دوروں کے دوران انہیں باقاعدہ طور پر بزنس کلاس میں سفر کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
ذرائع کے مطابق تمام حکومتی وزراء سرکاری طور پر لندن گئے تھے اور حکومت نے ان وزراء کے فضائی سفر کے اخراجات کے ساتھ ساتھ لندن میں رہنے کا خرچہ بھی برداشت کیا۔
وزراء کے ان دوروں نے کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں کہ کیا پاکستان اس طرح کی شاہ خرچیاں برداشت کرسکتا ہے؟ اگر وزیر اعظم ویڈیو لنک کے ذریعے این ای سی اور وفاقی کابینہ اجلاس پر تنقید کرسکتے ہیں تو وہ اپنے مشیروں اور وزراء کو ٹیلی فون یا اسکائپ کے ذریعے ہدایات کیوں نہیں دے سکتے؟
مزید پڑھیں: 'وزیراعظم رمضان کے اختتام سے قبل وطن لوٹیں گے'
تمام وزراء کو لندن کیوں جانا پڑا؟ لندن کا ایک بزنس کلاس کا ٹکٹ 2 لاکھ روپے تک کا ہوتا ہے اور لندن میں رہائش دنیا کے دنیا کے مہنگے ترین شہروں میں سے ایک ہے۔
کیا حکومت سمجھتی ہے کہ اتنے اخراجات جائز ہیں؟
ڈان سے بات کرتے ہوئے وفاقی کابینہ کے سینیئر رکن نے اس کی وضاحت کچھ طرح کی کہ سابق وزیر اعظم آصف علی زرداری اقتدار میں بھی نہیں ہیں لیکن وہ پھر بھی سندھ کابینہ کا اجلاس دبئی میں طلب کرتے ہیں تو وزیرا عظم اپنے وزراء کو لندن طلب کیوں نہیں کرسکتے؟
انہوں نے مزید بتایا کہ حکومتی معاملات اور ایسے غیر متوقع اخراجات معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف بیرون ملک سے حکومتی امور کے فرائض انجام دے کر خطرناک مثال قائم کررہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما کا کہنا ہے کہ نواز شریف جس طرح سے بیرون ملک سے حکومتی اتنظامات چلا رہے ہیں یہ درست نہیں ہے۔
انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ’ وزیراعظم شاید اگلی بار نیویارک میں اپنا طبی معائنہ کرانے جائیں اور مین ہیٹن میں کابینہ کا اجلاس طلب کریں۔ ‘
ڈان سے بات کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے تصدیق کی کہ انہیں اور طارق فاطمی کو وزیر اعظم نےسرمایہ کاروں سے ملاقات کے لیے لندن بلایا تھا، دونوں بطور وزیر اور معاون خصوصی کے حیثیت سے لندن گئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ کابینہ کے وزیر ہونے کی وجہ سے ان کو بین الاقوامی دوروں کے لیے بزنس کلاس میں سفر کرنے کی اجازت ہے۔
یہ خبر 24 جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔