دنیا

ہندوستان کا این ایس جی رکینت کا خواب چکنا چور

امریکا کی حمایت کے باوجود ہندوستان کی جوہری کلب میں شمولیت کے معاملے پر اجلاس میں متفقہ فیصلہ نہ ہوسکا۔

اسلام آباد: امریکا کی حمایت کے باوجود ہندوستان کا نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) میں شمولیت کا خواب چکنا چور ہوگیا۔

جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں نیوکلیئرسپلائرز گروپ کے اجلاس کا آخری روز ہے جس میں امریکا سمیت مغربی ممالک کی بھرپور حمایت کے باوجود ہندوستان کو جوہری کلب میں شمولیت کے معاملے پر متفقہ فیصلہ نہ ہوسکا۔

سفارتی ذرائع کے مطابق اجلاس میں جوہری عدم پھیلاؤ (این پی ٹی) پر دستخط نہ کرنے والے ممالک کو جوہری کلب کی رکنیت نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

48 رکنی این ایس جی گروپ جمعہ 24 جون کو اس فیصلے کا باضاطہ اعلان کرے گا۔

ہندوستان کو اُس وقت شدید جھٹکا لگا جب کچھ ممالک، جنھوں نے ہندوستان کی حمایت کا وعدہ کیا تھا،اجلاس میں ایسا نہیں کیا اور چین سمیت روس، برازیل، آسٹریا، نیوزی لینڈ، آئرلینڈ اور ترکی نے ہندوستان کی درخواست پر مخالفت کی۔

کارنیگی اینڈوومنٹ کے سینئر ایسوسی ایٹ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ 48 رکنی این ایس جی گروپ نے ہندوستان کی درخواست پر سوال کھڑے کیے۔

این ایس جی گروپ کی رکنیت کے لیے تمام ممالک کا اتفاق رائے ہونا ضروری ہے اور اگر کسی ایک ملک نے بھی ہندوستان کی رکنیت کی مخالفت کی تو وہ جوہری کلب میں شامل نہیں ہوسکتا۔

اجلاس میں ہندوستان کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، ہندوستان نے نہ صرف نان پرولفریشن ٹریٹی (این ٹی پی) پر دستخط نہیں کیا بلکہ اس نے 2008 میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی رکینت ملنے کے بعد بھی اس معاہدے کی قوانین کی پاسداری نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: این ایس جی میں شمولیت: ہندوستان کا سب سے بڑا مخالف چین

ہندوستان نے نہ ہی کومپری ہینسیو نیوکلیئرٹیسٹ بین ٹریٹی (سی ٹی بی ٹی) معاہدے پر کوئی پیش رفت کی ہے اور نہ ہی اپنے سول اور ملٹری جوہری ہتھیاروں کو الگ رکھا ہے۔

ہندوستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سب سے بڑا غیر محفوظ جوہری پروگرام چلارہا، جس کی جوہری مواد تیار کرنے کی صلاحیت پاکستان کے مقابلے 7.7 گنا زیادہ ہے۔

چین، ہندوستان کی رکینت کا سب سے بڑا مخالف تھا تاہم ہندوستان کو کئی مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی۔

چین، ہندوستان کو این ایس جی کی رکنیت کے لیے دی جانے والی رعایت کا مخالف تھا اور اس نے این پی ٹی معاہدے پر دستخط نہ کرنے والے ممالکوں کو جوہری کلب میں شامل نہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

چین کی مخالف کے باوجود ہندوستان پر امید تھا کہ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن اجلاس کی سائیڈ لائن میں ملاقات کریں گے تاہم اس ملاقات کے باوجود ہندوستان اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکا۔

اس حوالے سے چینی صدر نے پاکستانی ہم منصب ممنون حسین کو بتایا کہ ان کی حکومت این ایس جی رکنیت کے معاملے میں اپنے موقف پر قائم رہے گی۔

ایک غیر ملکی سفارتی ذرائع نے بتایا کہ ہندوستان کی رکینت کا معاملہ این ایس جی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا لیکن جاپان نے ہندوستان کی درخواست پر غور کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اجلاس میں پاکستان کی رکنیت کی درخواست پر غور ہی نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ ہندوستان کی این ایس جی رکنیت میں دلچسپی کے بعد پاکستان نے بھی اپنی رکنیت کے لیے لابنگ شروع کردی تھی اور اس حوالے سے گزشتہ ماہ باضاطہ طور پر درخواست بھی جمع کروائی تھی۔

اس مقصد کے لیے پاکستانی کے سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کی سربراہی میں ایک وفد نے سیئول میں این ایس جی اجلاس میں شرکت کی۔

ذرائع کے مطابق پاکستانی وفد نے اجلاس کے سائیڈ لائن پر 25 ممالک کے نمائندگان سے ملاقات کی۔

دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے اس سے قبل کہا تھا کہ کئی این ایس جی ممالک جوہری کلب میں شمولیت کے لیے این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے والے ممالک کے حوالے سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان اور ہندوستان کی درخواستوں پرالگ الگ غور نہیں کیا جائے گا۔

یہ خبر 24 جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔