میں نے امجد صابری کو کیسا پایا؟
وہ بھی رمضان کا مہینہ اورڈھلتی ہوئی شام تھی مجھے جب اُن سے ملاقات کا اتفاق ہوا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ریڈیو پاکستان کے ایف ایم 101 چینل سے وابستہ تھا۔ جمعے کے دن سہ پہر کو جب میں ریڈیو پہنچا، تو مجھ سے پہلے ساتھی میزبان اپنے شو کا اختتام کر رہی تھیں۔
ان کے پروگرام میں جوشخصیت مدعو تھی، ان سے روبرو ہونے کا میرا پہلا موقع تھا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ اس کے بعد میرا شو ہے، میں قوالی، تصوف اور آپ کے گھرانے کی فنی خدمات پر بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ انہوں نے نہ اپنی مصروفیت کا بہانہ بنایا، اور نہ ہی تکان کا، بلکہ فوراً میری درخواست مان لی۔
اس رویے سے میری واقفیت نئی، لیکن ان کی آواز سے شناسائی پرانی تھی۔ آج افسوس ناک دن ہے، اس روشن آواز کو رمضان کے مہینے ہی میں قتل کر دیا گیا۔ یہ ایک شخص کا قتل نہیں، برصغیر میں 400 برس سے زیادہ عرصے سے قوالی کی خدمت کرنے والے گھرانے کا جذباتی قتل بھی ہے۔
ریڈیو کے اس پروگرام میں اس پہلی ملاقات کے مکالمے میں صرف ان سے گفتگو ہی نہیں ہوئی، بلکہ ایک ایک کر کے ان کی ذات کے دریچے بھی مجھ پر وا ہوتے چلے گئے۔
قوالی کا فن اُن کے لیے صرف ایک روایتی کام نہیں تھا، بلکہ وہ اس کو روح کی مسیحائی تصور کرتے تھے۔ اُن کے خیال سے یہ خوش قسمتی تھی کہ وہ ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے، جہاں قوالی کے فنی خدمت گزار موجود تھے۔ یہ وہ گھرانہ ہے جسے برصغیر میں قوالی کے فن میں نسل درنسل شناخت حاصل ہوئی۔ مغل دور میں ’’میاں تان سین‘‘ سے پیوستہ گھرانے کے فرد ہونے کے ناطے اُنہیں اس نسبت پر فخر تھا۔
وہ اکثر کہا کرتے ’’میری کوشش ہے کہ میں اپنے بڑوں کی لاج رکھ سکوں۔‘‘ اسی لیے خود کو قوالی جیسے مشکل فن سے جوڑے رکھا، نہ صرف بچپن سے اس فن کی تربیت اپنے والد غلام فرید صابری اور چچا مقبول احمد صابری سے حاصل کی، بلکہ اس فن میں نئی نسل کی ترغیب کا باعث بھی بنے۔
قیامِ پاکستان کے بعد قوالی کے چار بڑے گھرانوں میں سے ایک گھرانہ صابری برادران کا تھا، جس کی نمائندگی اب وہ کر رہے تھے۔ امجد صابری اور ان کے گھرانے سے روشن ہونے والے صوفیانہ کلام کے دیے سے ایک جہان منور ہوا۔