پاکستان

فاطمہ جناح کی گاڑیاں تباہی سے دوچار

پرانی گاڑیوں کے شوقین محسن اکرام نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی دو گاڑیوں کو ری اسٹور کرنے کا بیڑا اٹھایا لیا۔

چیزیں مستقل حرکت میں رہیں گی جب تک کہ ان پر کوئی بیرونی قوت نہ لگائی جائے، یہ ہے نیوٹن کا پہلا قانونِ حرکت، محترمہ فاطمہ جناح کی سنہری 1955 کی کیڈیلیک سیریز 62 اور ان کی سفید مرسڈیز بینز 200 ایک عرصے سے روڈ پر چلنے کے قابل نہیں رہی اور یہ مکمل طور پر زنگ آلود ہوچکی ہوتیں اگر چند افراد اس کو بچانے کی کوششیں نہ کرتے۔

کئی سالوں سے اس پر بحث مباحثے اور تقاریر کی گئیں، اخباروں میں خطوط شائع کیے گئے لیکن سب کچھ رائیگاں گیا۔ تاہم 19 سالہ جدوجہد کے نتائج اب سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں جس کے تحت محترمہ فاطمہ جناح کی دونوں گاڑیوں کو بلا آخر ازسرنو بحال (ری اسٹور) کیا جائے گا، ونٹیج اینڈ کلاسک کار کلب آف پاکستان اور موٹر ہیڈز پاکستان کے صدر اور بانی محسن اکرام نے پہلی مرتبہ ان گاڑیوں کو مہاٹا پیلس میں 93-1992 میں دیکھا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت یہ پیلس کے گیراج میں کھڑی تھیں اور ان کی حالت اس وقت اتنی نازک نہ تھی اور جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انجن پر اسٹیکرز بھی موجود تھے۔

یہ 1997 تک ایسی ہی رہیں لیکن اسی سال حکومت سندھ نے مہاٹا پیلس کی تزئین و آرائش کرنے کا فیصلہ کیا، اس وقت عمارت میں کام کرنے والے مزدوروں نے گاڑیوں کو گیراج سے نکالا اور باہر ہی چھوڑ دیا، ان گاڑیوں کی قدر و قیمت سے بالکل نابلد یہ مزدور وقتاً فوقتاً اس کے بونٹ پر بیٹھتے اور اس پر دن اور رات کا کھانا کھاتے۔

یہی وہ وقت تھا جب محسن اکرام نے کلاسک گاڑیاں جمع کرنے والے ایک صاحب کو یہ پرچار کرتے ہوئے سنا کہ کس طرح اس نے ڈیش بورڈ توڑ کر ان گاڑی کی گھڑی اور دیگر سامان نکال لیا، اسی وقت وہ فوراً بھاگے بھاگے گئے تاکہ دیکھیں سکیں کہ آخر معاملہ کیا ہے، انہیں یہ دیکھ کر شدید دھچکا لگا کہ گاڑی کے ٹائر اور رِم غائب تھے، اس کے علاوہ گاڑیوں کے دیگر بھی کئی پارٹس چوری کیے جا چکے تھے اور گاڑی انتہائی خستہ حالت میں اینٹوں پر کھڑی ہوئی تھی، اس صورتحال نے انہیں اس وقت کے گورنر کو خط لکھنے پر مجبور کردیا کہ وہ براہ مہربانی اس صورتحال کا فوری جائزہ لیں۔

اس بات کا کچھ اثر تو ہوا کیونکہ کار کو فوراً مہاٹا پیلس سے ہٹا کر سندھ آرکائیو ڈپارٹمنٹ میں پہنچا دیا گیا۔

محسن اکرام نے بتایا کہ 'وہ باقاعدہ گاڑی کو گھسیٹ کر سندھ آرکائیوز کی عمارت میں لے گئے جس سے اسے مزید نقصان پہنچا، میں نے سوچا کہ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس قیمتی اثاثے کے ساتھ کیا ہو رہا ہے لہٰذا میں نے ڈان کے 'لیٹر ٹو دی ایڈیٹر' سیکشن میں ایک خط تحریر کیا جس نے مزید لوگوں کو بھی خط لکھنے پر مجبور کردیا، جو میری طرح ان کاروں کے ساتھ روا رکے گئے رویے پر حیران اور پریشان تھے۔

فاطمہ جناح کی 1965 ماڈل کی مرسڈیز 200.

بہرحال تمام ہی لوگ ان گاڑیوں کو ری اسٹور کرنے کے حق میں تھے خصوصا حکام جو ان ورثے کی گاڑیوں کو ری اسٹور کیے جانے کے امکانات پر بہت پرجوش تھے۔

ایک طویل بحث جاری رہی، کسی نہ کسی کو یہ کام انجام دینے کیلئے بلایا ہی جانا تھا، کلاسک گاڑیوں کے ایک شوقین اور بذات خود سینکڑوں گاڑیوں کو ری اسٹور کرنے والے محسن اکرام نے اس کام کیلئے رضاکارانہ خدمات پیش کرنے کیلئے پراعتماد تھے۔

انہوں نے کہا کہ 'میں ان کلاسک گاڑیوں کے بارے میں اتنا پرجوش تھا کہ میں نے مفت میں ہی یہ کام کرنے کی پیشکش کردی لیکن سندھ آرکائیوز ڈپارٹمنٹ میں کئی لوگوں کے آنے اور جانے کے سبب یہ معاملہ منطقی انجام کو نہ پہنچ سکا، یہاں تک کہ کراچی کے ایک اور رہائشی نے گاڑیوں کو تحویل میں لینے کیلئے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تاکہ انہیں ری اسٹور کیا جا سکے'۔

جلد ہی دیگر لوگوں کو بھی معاملے کی بھنک پڑ گئی, 2006 تک ان گاڑی کو اسلام آباد لے جا کر ری اسٹور کرنے اور آرمی میوزیم یا ایف نائن میں محترمہ فاطمہ جناح کے نام سے قائم پاک میں نمائش کیلئے رکھنے کے منصوبے بنائے گئے۔

محسن اکرام نے کہا کہ 'میرا اعتراض یہ تھا کہ یہ گاڑیاں کراچی کا ورثہ ہیں اور ان کو اسی شہر میں رکھنا چاہیے، میں نے انہیں بتایا کہ میں صرف اسی صورت میں اس کو ری اسٹور کرنے میں مدد کر سکتا ہوں اگر یہ کراچی میں ہوں اور اگر ان کو ان کی اصل جگہ مہاٹا پیلس میں نمائش کیلئے رکھا جائے'۔

اس دوران پھر ایک طویل عرصے کیلئے خاموشی طاری ہو گئی، اس دوران سندھ آرکائیوز ڈپارٹمنٹ کے حکام گاڑیوں کی بحالی کے بارے میں محسن صاحب کو بلا کر پوچھتے رہے، وہ ان کی جانب سے بھی کچھ نہ کرنے اور محض یہ پوچھنے پر بھی شدید بیزار ہو چکے تھے کہ آیا وہ اب بھی گاڑیوں کو ری اسٹور کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں یا نہیں۔

'میں نے انہیں بتایا کہ میں پہلے اور اب بھی چاہتا ہوں لیکن انہیں بھی مجھے محض کال کرنے سے آگے بڑھنا چاہیے، انہوں نے مجھے بتایا کہ جب ان کی آفس میں تعیناتی ہوئی تو انہوں نے پرانی فائلیں کھولیں اور انہیں صرف میرا ہی نام ملا کیونکہ ان فائلوں میں تمام خطوط اور درخواستیں میرے ہی نام کی تھیں، مجھے خوشی ہے کہ آخر کئی سالوں کی محنت کے بعد یہ ہونے جا رہا تھا'۔

گاڑی کے حوالے سے محسن اکرام نے کہا کہ اس میں ڈیڑھ سے دو سال لگ سکتے ہیں، لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ گاڑیاں نئی جیسی ہی لگے گی، تو جی ہاں بالکل لگے گی لیکن ان گاڑیوں کو ری اسٹور کرنے کیلئے یہاں بھی دو طرح کے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں، پہلا طریقہ آسان ہے جس کے تحت کسی بھی ڈونر گاڑی کے پرزے نکال کر اس گاڑی میں لگا کر اسے ری اسٹور کردیا جائے، اس میں زیادہ وقت بھی نہیں لگے گا، لیکن نہیں، یہ پھر محترمہ فاطمہ جناح کی گاڑی نہیں رہے گی، 'میرا ماننا ہے کہ جس حد تک ممکن ہو اصل چیزیں لگائی جائیں, اگر وائپر بھی ری اسٹور ہو سکتے ہیں تو میں انہیں تبدیل کرنے کے بجائے ایسا ہی کروں گا, کچھ ایسا ہی معاملہ اسٹیئرنگ وہیل اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کا بھی ہے, اس میں کچھ اضافی وقت تو لگے گا لیکن یہ اصل ہو گی، چین، تائیوان، کوریا یا ہندوستان سے بنائی گئی کوئی نقل نہیں'۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔