جب پولیس فلوریڈا میں مسلح شخص کے ہاتھوں متعدد ہلاکتوں کی اطلاع دے رہی تھی تب میرے ذہن میں ایک ہی خیال دوڑا، ''اگر قتل عام کرنے والا مسلح شخص مسلمان نکلا تو؟''
کچھ گھنٹوں بعد جب اس بات کی بھی تصدیق ہو گئی کہ اس شخص نے، پولیس کے ہاتھوں مرنے سے پہلے 50 لوگوں کا قتل کیا جبکہ اس کی شناخت کی تصدیق بطور عمر متین ہوئی، جو امریکا میں مقیم افغان گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔
میں نے جب مختلف ذرائع سے اس شخص سے متعلق خبریں اور پروفائیل پڑھی تو میں نے اپنے دوست کو کہا کہ ''اس مسلح شخص نے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارت دلوا دی ہے''
کیسے؟
ٹرمپ نے اس موقعے کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پرزور انداز میں کہا کہ مسئلہ 'بنیاد پرست اسلام' کا ہے اور انہوں نے اپنے ووٹرز کے سامنے ایک واضح حل بھی رکھ دیا — جسے نہ صرف امریکیوں کے لیے سمجھنا آسان ہے بلکہ اس صورتحال میں یہی حل مفید دکھائی دے رہا ہے۔
امریکا میں ان ملکوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے داخلے پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی جائے جو دہشتگردی اور عسکریت پسندی کی لپیٹ میں رہے ہیں۔ اور جب تک اس خطرے (اسلامی بنیاد پرستی) کا کوئی ٹھوس حل نہیں نکالا جاتا، تب تک پابندی عائد رکھی جائے۔ یہ وہ حل ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا۔ ہوسکتا ہے کہ اب متعدد امریکی اس حل کی تائید کریں۔
ہیلری کلنٹن جو کہ اب تک امریکا کے اندر اور باہر کسی بھی عقلمند انسان کی پسندیدہ صدارتی امیدوار تھیں، نے اورلینڈو سانحے سے پہلے تک کبھی بھی دہشت گردی کے مسئلے کو بنیاد پرست اسلام سے منسوب نہیں کیا تھا اور ان کے پاس اس کا جواز بھی تھا۔
کیونکہ اگر آپ نے ایک بار بنیاد پرست اسلام ازم پر الزام ٹھہرا دیا تو اگلا قدم یہی ہوگا کہ آپ کو بنیاد پرست اور غیر بنیاد پرست اسلام کے درمیان لکیر کھینچنی پڑے گی — اور اس کے بعد آپ کو بنیاد پرست مسلمانوں اور غیر بنیاد پرست مسلمانوں کو بھی الگ الگ کرنا پڑے گا۔
اس طرح کافی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ بنیاد پرست یا غیر بنیاد پرست کی وضاحتیں کسی ایک ٹھوس وضاحت کے بجائے انفرادی طور پر ترتیب دی جاسکتی ہیں؛ اس کا مطلب یہی ہے کہ مختلف لوگوں کے درمیان ان وضاحتوں پر اختلاف ہوسکتا ہے۔
ہیلری کلنٹن مسلسل امریکی مسلمانوں کے خلاف بدنامی پھیلانے پر خبردار کرتی رہیں ہیں۔ مگر بالآخر انہوں نے خود بھی اسی مؤقف کی تائید کردی جس کے وہ خود مخالف تھیں، جب انہوں نے یہ کہہ دیا کہ: ''ہم اس (اورلینڈو سانحے) کو بنیاد پرست اسلام ازم کہہ سکتے ہیں۔''
نہ صرف فائرنگ کے واقعے نے ہیلری کو یو ٹرن لینے پر مجبور کردیا بلکہ ان کا یہ اقرار نامہ ٹرمپ کے ایک بیان کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ''اگر اس واقعے بعد بھی ہیلری کلنٹن، 'بنیاد پرست اسلام ازم' کے دو لفظ نہیں کہہ سکتیں تو انہیں صدارت کی دوڑ سے نکل جانا چاہیے۔''
ہیلری دوسرے دن ہی ان کا کہنا مان بیٹھیں۔ شاید اگر وہ ایسا نہ کرتیں تو ان کی شخصیت ضرور متاثر ہوتی، اس طرح ہمیں وہاں کے عام لوگوں کے جذبات کا اندازہ ہوتا ہے، ووٹنگ کا دن قریب آتے آتے اس شدت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے ہیلری کلنٹن کیلی فورنیا واقعے کے حوالے سے یہ الفاظ کہنے سے انکار کر چکی تھیں۔