چترال : کالاشی لڑکی کے 'مذہب' کی جبری تبدیلی پر تصادم
اسلام آباد : چترال میں سینکڑوں مقامی رہائشیوں کا کالاش قبیلے کے افراد سے جمعرات کو اس وقت تصادم ہوگیا جب ایک نوجوان لڑکی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ اسے جبراً اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔
غیر ملکی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کالاش میں سرگرم سماجی رہنما لیوک رحمت نے بتایا کہ پولیس نے ضلع چترال کی وادی بمبوریت میں کالاش قبیلے کے ایک گھر پر حملہ کرنے والے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
رحمت لیوک کے مطابق یہ وہ گھر تھا جہاں وہ لڑکی اپنے تبدیلی مذہب کے حوالے سے پولیس کو بیان دینے کے لیے آئی تھی۔
رحمت لیوک کا کہنا ہے کہ کالاش قبیلے کے افراد کی تعداد صرف چار ہزار کے لگ بھگ ہے۔
نوجوانوں میں اسلام قبول کرنے کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے اس قدیم اور معدوم ہوتے قبیلے کی روایات کو بچانے کے لیے سماجی کارکنوں کی جانب سے مہم چلائی جارہی ہے۔
گھر کے مالک نے بتایا کہ وہ لڑکی پولیس سے بات کرنے کے لیے اس کے گھر (اپنے پڑوس) گئی تھی تاہم سینکڑوں پولیس اہلکار اس کے تحفظ کے لیے گھر کے باہر اکھٹے ہوگئے۔
لیوک رحمت نے بتایا " کالاش برادری بھی اس خاندان کو بچانے کے لیے جمع ہوئی تھی اور جب مقامی مسلم آبادی نے گھر پر ڈنڈوں اور پتھروں سے حملہ کیا تو سب اپنی زندگیاں بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے"۔
انہوں نے بتایا " درجنوں" افراد زخمی ہوئے تاہم بظاہر کوئی بھی سنگین طور پر زخمی نہیں ہوا۔
مقامی کالاش سیاست دان عمران کبیر نے کہا " قانون نافذ کرنے والے ادارے بروقت یہاں پہنچ گئے تھے ورنہ سب مارے جاتے"۔
یہ واضح نہیں کہ اس لڑکی کے ساتھ کیا ہوا۔
چترال شہر کی پولیس کا کہنا تھا کہ ضلعی پولیس سربراہ دیگر سنیئر افسران کے ہمراہ بمبوریت گئے تھے اور اب صورتحال کنٹرول میں ہے۔
جس گھر پر حملہ ہوا اس کا مالک بھی چترال میں موجود ہے اور اس کے مطابق پولیس نے اسے گھر واپس جانے سے روک دیا ہے۔
اس نے بتایا " مشتعل افراد ایک ہجوم کی شکل میں آئے اور میرے گھر پر حملہ کرکے میری بیوی اور بچوں کو مارنے کی کوشش کی"۔
اس کا مزید کہنا تھا " انہوں نے چھت اور کھڑکیوں پر پتھراﺅ کیا جبکہ پولیس جانب سے ہوائی فائرنگ کی گئی"۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔