جنگِ حیدرآباد: انگریزوں کا سندھ میں حتمی معرکہ
سندھ کی سرزمین ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہی ہے۔ کبھی یونانیوں نے اس پر تیر برسائے ہیں تو کبھی عربوں، ترخانوں، مغلوں، انگریزوں کے گھوڑوں نے اپنی ٹاپوں سے اسے روندا ہے۔ جب تاریخ کی کتابوں کی ورق گردانی کی جاتی ہے تو بہت کچھ واضح ہونے لگتا ہے، اور ہمیں فتح و شکست کے کئی قصے پڑھنے کو ملتے ہیں۔
تصور کریں ایسی جگہ کا جو آج سے صرف چند صدی قبل میدانِ جنگ رہی ہو، جس کی فضا میں بارود کی بو ایک طویل عرصے تک موجود ہو۔ جہاں شہید ہونے والوں کی اجتماعی قبریں بنائی گئیں ہوں، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب وہ میدانِ جنگ پھولوں سے مہکتا ہو، جہاں ہر طرف سبزہ ہو، لہلہاتے کھیت اور باغات ہوں تو یقین نہیں ہوتا کہ وہاں پر کبھی توپوں کی گھن گرج کے درمیان اتنی قتل و غارت ہوئی ہوگی۔
گولیوں کی بوچھاڑ نے کئی سپاہیوں کے سینوں کو چھلنی کیا ہوگا، اور کسی کی تلوار سے کوئی گردن تن سے جدا ہوئی ہوگی۔ فتح کے جھنڈے گاڑے گئے ہوں گے اور شکست کھائے حکمرانوں نے فاتح فوج کے آگے سر خم کیا ہوگا۔
سندھ میں ایک ایسا ہی میدانِ جنگ موجود ہے جہاں آپ کو چہارسو ہریالی نظر آئی گی، ہر جانب مہکتے گلاب اور لہلہاتے کھیت دکھائی دیں گے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سندھ کے تالپور حکمرانوں نے دوبے اور میانی کی جنگیں لڑیں تھیں۔ یہ لفظ سندھی زبان کے لفظ دو- آبو کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔