حکومتی بنچوں پر موجود ارکان اسمبلی کابینہ میں شامل وزراء کی زمینی حقائق سے مکمل غفلت اور ان کی بنائی جانے والی بے قاعدہ پالیسیوں سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
گجرانوالہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رکن اسمبلی سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف پاکستان کے وزیر خارجہ بننے کیلئے موزوں ترین شخص ہیں۔
جسٹس (ریٹائرڈ) افتخار احمد چیمہ نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ہندوستان خطے اور بین الاقوامی سطح پر اتحاد قائم کررہا ہے اور اپنے ملک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری لارہا ہے، ایسے وقت میں ہمارے دفتر خارجہ میں ایسی کوئی سرگرمی نظر نہیں آرہی جو اس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
جسٹس چیمہ جنہیں اثاثے چھپانے پر سپریم کورٹ نے معطل کردیا تھا حال ہی میں اپنی نشست دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، شائد انہیں معلوم نہیں کہ وزیر خارجہ کا اضافی عہدہ اس وقت خود وزیر اعظم نواز شریف کے پاس ہے اور سرتاج عزیز محض ان کے مشیر ہیں۔
جسٹس چیمہ کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے بہترین راستہ یہی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو وفاقی حکومت میں لائے اور انہیں وزارت خارجہ کا قلمدان سونپے۔
اسی اثناء میں جسٹس چیمہ نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھی کسانوں کو نظر انداز کرنے پر آڑے ہاتھوں لیا، انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے زرعی شعبے کو نظر انداز کیے جانے کے بعد کسانوں کے پاس حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔
انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ کسانوں کے طیش میں آنے کا انتظار نہ کرے ورنہ بہت دیر ہوجائے گی اور یہ پورے نظام کیلئے نقصان دہ ہوگا۔
ویہاڑی سے تعلق رکھنے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک غیر معروف رکن اسمبلی طاہر اقبال چوہدری نے بھی زرعی شعبے سے وابستہ افراد کے مفادات کو نقصان پہنچانے پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر شدید تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ لگتا ہے وزیر خزانہ نے یہ عزم کررکھا ہے کہ وہ چھوٹے کسانوں کے فائدے کیلئے کچھ نہیں کریں گے، اسحاق ڈار کو سمجھنا چاہیے کہ ملکی آبادی کا 70 فیصد حصہ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے اور زرعی اجناس کی پیداوار میں کمی سے ملک کو بھی نقصان ہوگا۔
گجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور رکن اسمبلی میاں طارق محمود نے تنقید کیلئے وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف کو منتخب کیا۔
انہوں نے کہا کہ گجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی (گیپکو) نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے زائد بل بھیج کر 12 سے 14 ارب روپے عوام سے بٹورے، تاہم وزارت پانی و بجلی مقامی افراد کے خلاف مقدمات درج کرنے میں مصروف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ہماری ہی وزارت پانی و بجلی کی جانب سے لوٹا جارہا ہے، جبکہ بغیر کسی جرم کے ہم پر جرمانے بھی لگائے جارہے ہیں۔
طارق محمود کی جانب سے خواجہ آصف کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے پر اپوزیشن نے انہیں خوب داد دی جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے ان کا مائیک بند کردیا۔
مذکورہ تینوں ارکان اسمبلی نے ملک سے کرپشن کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات نہ کرنے پر اپنی حکومت کی شدید تنقید کی۔
اپوزیشن ارکان اسمبلی نے خاص طور پر دفتر خارجہ کو ہدف تنقید بنایا، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیریں مزاری نے کہا کہ حالیہ کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے دفتر خارجہ کو بند کردینا چاہیے۔
شیریں مزاری نے سوال کیا کہ کیا کوئی ایسا محاذ ہے جہاں ہمارے دفتر خارجہ نے ملکی مفادات کو بچانے میں اپنا کردار ثابت کیا ہو، انہوں نے کہا کہ چاہے نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) میں پاکستان کی شمولیت ہو، پاک ایران گیس پائپ لائن ہو، افغانستان کے ساتھ حالیہ سرحدی تنازع ہو یا مسئلہ کشمیر، دفتر خارجہ کا کردار کہیں موثر نظر نہیں آتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) کے عمران ظفر لغاری نے بھی اس بات سے اتفاق کیا اور کہا کہ پاکستان خارجہ پالیسی کے حوالے سے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔
انہوں نے ملک میں خواتین پر بڑھتے ہوئے حملوں پر اسلامی نظریاتی کونسل کے جانبدارانہ کردار کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سمت درست ہونے تک ملک میں خواتین کے احترام کا کلچر پروان نہیں چڑھ سکتا۔
پی ٹی آئی کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر خزانہ کو ان کے بیانات یاد دلائے جس میں انہوں ںے سوئس بینکوں میں رکھی دولت وطن واپس لانے کے دعوے کیے تھے۔
عارف علوی نے کہا کہ کیا ستم ظریفی ہے کہ سوئس حکومت نے ان ممالک کی مدد کیلئے نئے قوانین بنالیے ہیں جن کے شہریوں کی دولت ان کے ہاں جمع ہے لیکن ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔
انہوں نے استفسار کیا کہ اسحاق ڈار کا پاکستانیوں کی جانب سے سوئس بینکوں میں جمع کرائی جانے والی 200 ارب ڈالر کی خطیر رقم کی واپسی کیلئے قانون سازی کا وعدہ کیاہوا؟
اس موقع پر کراچی سے تعلق رکھنے والے عارف علوی جذباتی ہوگئے اور ایوان کو یاد دلایا کہ لوگ بھوک و افلاس کی وجہ سے خود کشی کرنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک اگر حکومت روزگار، صحت، تعلیم اور انصاف کی فراہمی کی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو مجموعی قومی پیداوار کے زیادہ یا کم ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یہ خبر 14 جون 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔