اورلینڈو فائرنگ: 'واقعے کا داعش سے کوئی تعلق نہیں'
فورٹ پیئرس: امریکی ریاست فلوریڈا کے جنوبی شہر اورلینڈو میں ہم جنس پرستوں کے نائٹ کلب میں فائرنگ کرکے 50 افراد کو ہلاک اور 53 کو زخمی کرنے والے عمر متین کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ مذہب کے قریب تھا تاہم زیادہ تر خاموش رہتا تھا اور لوگوں میں گھلتا ملتا نہیں تھا۔
یاد رہے کہ اتوار 12 جون کو عمر متین نامی شخص نے اورلینڈو کے ایک نائٹ کلب میں اندھا دھند فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں 50 افراد ہلاک اور 53 زخمی ہوگئے۔
حکام نے فوری طور پر اسے 'دہشت گردی' کا واقعہ قرار دیا، قانون نافذ کرنے والے ایک عہدیدار نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایک مسلح شخص نے نائٹ کلب سے 911 ایمرجنسی سروس کو کال کی اور شدت پسند تنظیم داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی سے اپنی بیعت کا اقرار کیا۔
مزید پڑھیں: امریکا:ہم جنس پرستوں کے کلب میں فائرنگ، 50 ہلاک
فائرنگ کی اطلاع سامنے کے 3 گھنٹے بعد پولیس نے کلب میں موجود مسلح شخص عمر متین کی ہلاکت کی تصدیق کی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے امام مسجد سید شفیق الرحمٰن کے حوالے سے بتایا کہ عمر ہفتے میں 3 سے 4 مرتبہ اپنے چھوٹے بیٹے کے ہمراہ عصر کی نماز شہر کے اسلامک سینٹر میں ادا کیا کرتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ بہت زیادہ سوشل نہیں تھا اور نہ ہی اس میں کبھی تشدد کے آثار دکھائی دیئے۔ امام شفیق الرحمٰن کے مطابق انھوں نے عمر متین کو آخری بار جمعہ 10 جون کو دیکھا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:مزید پڑھیں:اورلینڈو کلب فائرنگ کے متاثرین اور ان کی یادیں
شفیق الرحمٰن نے اے پی کو بتایا کہ نماز ختم کرتے ہی عمر مسجد سے چلاجاتا تھا، وہ لوگوں کے ساتھ گھلتا ملتا نہیں تھا، وہ خاموش طبع اور بہت پرامن تھا۔
امام شفیق الرحمٰن نے بتایا کہ وہ عمر متین اور اُس کے خاندان کو اس وقت سے جانتے ہیں جب عمر بہت چھوٹا تھا۔
ان کا کہنا تھا، بچپن میں شرارتی عمر بڑے ہونے کے ساتھ ہی سنجیدہ ہوگیا۔ وہ انگریزی اور فارسی دونوں زبانیں بول سکتا تھا اور باڈی بلڈنگ بھی کرتا تھا۔
امام کے مطابق وہ بالکل بھی ایسا نہیں دکھتا تھا کہ وہ اتنا بڑا قتل عام کرے گا۔
رحمٰن کے مطابق، 'یہ مکمل طور پر غیر متوقع تھا۔'
مزید پڑھیں:اورلینڈو فائرنگ: عمر متین 'ذہنی بیمار' تھا، سابق اہلیہ
واضح رہے کہ عمر متین کی سابق اہلیہ ستارہ یوسفی نے اورلینڈو فائرنگ کے واقعے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک کرنے کے بجائے عمر متین کی ذہنی حالت سے جوڑا تھا۔
ستارہ یوسفی کا کہنا تھا کہ عمر متین ایک جذباتی، ذہنی طور پر پریشان اور پرتشدد مزاج کا حامل شخص تھا جو پولیس افسر بننا چاہتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ذہنی طور پر غیرمستحکم اور بیمار تھا۔
امام شفیق الرحمٰن نے بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا، ' میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس واقعے کا داعش سے کوئی تعلق نہیں ہے'۔
عمر متین کے والد کا ٹاک شو
پولیس کے مطابق عمر متین ایک افغان تارک وطن کا بیٹا تھا، جو امریکا میں ایک ٹاک شو کیا کرتے تھے، تاہم اس ٹاک شو کی نوعیت واضح نہیں ہوسکی، ایک سابق افغان عہدیدار کے مطابق مذکورہ پرگرام میں طالبان کی حمایت کی جاتی تھی جبکہ ایک سابق کولیگ کے مطابق پروگرام خالصتاً امریکا کی حمایت میں ہوا کرتا تھا۔
عمر متین کے والد صدیقی میر متین ایک لائف انشورنس سیلز مین ہیں جنھوں نے 2010 میں 'ڈیورنڈ جرگہ انکارپوریشن' نامی گروپ کا آغاز کیا۔ کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر قاسم ترین، جو خود بھی ڈیورنڈ جرگہ کے بورڈ ممبر ہیں، نے بتایا کہ اس گروپ کا نام پاکستان اور افغانستان کے درمیان متنازع سرحد کے اوپر رکھا گیا۔
قاسم ترین کا کہنا تھا، 'میر متین ایک ٹی وی شو کیا کرتے تھے، جن میں وہ افغان شہریوں کو پیش آنے والے واقعات بیان کیا کرتے تھے۔'
قاسم نے فائرنگ کے واقعے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'عمر متین کے والد کو اس ملک (امریکا ) سے محبت تھی۔'
صدیقی میر متین کے کچھ شو ریکارڈ کرکے بعدازاں یوٹیوب پر بھی پوسٹ کیے گئے، ایک قسط کے دوران پس منظر میں یہ جملے تحریر تھے، 'لونگ لِو امریکا! لونگ لِو افغانستان۔۔۔افغان امریکا کے سب سے اچھے دوست ہیں۔'
دوسری جانب ایک سابق افغان عہدیدار کا کہنا تھا کہ' ڈیورنڈ جرگہ شو'، کیلیفورنیا میں واقع ایک چینل 'پیام افغانستان' سے نشر کیا جاتا تھا، جو افغان طالبان کی حمایت کا اظہار کرتا تھا اور ان میں سے بیشتر پشتون تھے۔ امریکا میں موجود پشتون کمیونٹی کے ناظرین باقاعدگی سے چینل کو فون کرکے پشتونوں کی حمایت کی تائید کرتے تھے۔
مذکورہ عہدیدار کے مطابق دی 'ڈیورنڈ جرگہ شو' طالبان کا حامی اور پاکستان کے خلاف تھا، جو افغانستان میں غیر ملکیوں اور امریکا کے اقدامات پر تنقید کیا کرتا تھا۔
عہدیدار کے مطابق جب موجودہ افغان صدر اشرف غنی جنوری 2014 میں اس شو میں تشریف لائے تو صدیقی میر متین نے ان کی تعریف کی، لیکن بعد میں انھوں نے غنی حکومت کی مخالفت کی۔
انھوں نے بتایا کہ صدیقی میر متین نے اپنے شو میں اس بات کا بھی اعلان کیا کہ وہ اگلے افغان صدارتی انتخاب میں حصہ لیں گے
اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ 2013 میں عمر متین کو اپنے ایک ساتھی سے تلخ کلامی کے بعد فیڈرل بورڈ آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کی تفتیش کا سامنا کرنا پڑا۔
ایف بی آئی ایجنٹ رونالڈ ہوپر کے مطابق 2014 میں حکام کو معلوم ہوا کہ عمر متین کے ایک امریکی خودکش بمبار سے تعلقات ہیں، تاہم انھوں نے اس رابطے کو معمولی قرار دیا اور کہا کہ اس وقت یہ اتنا بڑا خطرہ نہیں تھا۔
دوسری جانب بیورو آف الکوحل، ٹوبیکو اینڈ فائر آرمز کے ٹریور ویلینور نے بتایا کہ گذشتہ ہفتے عمر متین نے کم از کم 2 لائسنس یافتہ آتشیں ہتھیار خریدے۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔