پاکستان

این ایس جی رکنیت:'پاکستان اپنا کیس خود پیش کرے'

نیوکلیئرسپلائرزگروپ میں شمولیت کافیصلہ متفقہ طورپرکیاجاتا ہے،کسی ایک ملک کی حمایت سےپاکستان کورکنیت نہیں مل سکتی،امریکا

واشنگٹن: امریکا نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ نیوکلیئرسپلائرز گروپ (این ایس جی) کی رکنیت کے لیے اپنا کیس خود 48 رکنی این ایس جی گروپ کے سامنے پیش کرے۔

واضح رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں پاکستان نے اوباما انتظامیہ اور کانگریس کو تحریر کیے گئے خط میں کہا تھا کہ امریکا نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کے لیے پاکستان کی مدد کرے۔

یہ بھی پڑھیں: نیوکلیئر سپلائرز گروپ: پاکستان نے امریکا سے مدد مانگ لی

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان مارک ٹونر نے پاکستان پر زور دیا کہ پاکستان این ایس جی گروپ میں شمولیت کے لیے اپنی درخواست خود 48 رکنی گروپ کے سامنے پیش کرے۔

اس سوال کے جواب میں کہ امریکا، پاکستان کی این ایس جی کی رکنیت حاصل کرنے میں مدد کیوں نہیں کررہا، مارک ٹونر کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کی این ایس جی میں شمولیت کا فیصلہ متفقہ طور پر کیا جاتا ہے، کسی ایک ملک کی حمایت سے پاکستان کو این ایس جی کی رکنیت نہیں مل سکتی۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان بھی این ایس جی گروپ میں شامل ہونا چاہتا ہے، اگر پاکستان بھی جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کام کرنے والے گروپ میں شامل ہونا چاہتا ہے تو پاکستان کو 48 رکنی گروپ کی حمایت حاصل کرنی ہوگی۔

48 رکنی نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) گروپ کا خصوصی اجلاس جمعرات 10 جون کو ویانا میں ہوا، جس میں جنوبی ایشیا کے 2 ممالک کی این ایس گروپ میں شمولیت کی درخواستوں اور دیگر مسائل پر غور کیا گیا۔

تاہم موجودہ صورتحال میں بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ مستقبل قریب میں نہ تو ہندوستان اور نہ ہی پاکستان کے این ایس جی میں شمولیت کے امکانات ہیں کیونکہ چین نے ہندوستان کی شمولیت کی مخالفت کر رکھی ہے جبکہ پاکستان کو امریکا کی حمایت حاصل کرنے میں کامیابی نہیں مل سکی ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان اور ہندوستان نے اب تک جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نیوکلیئر نان پرولیفریشن ٹریٹی (این ٹی پی) پر دستخط نہیں کیے۔

مزید پڑھیں: امریکا نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں ہندوستانی شمولیت کا حامی

واضح رہے کہ امریکی صدر براک اوباما نے ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کے دوران انھیں این ایس جی گروپ میں شمولیت کی یقین دہانی کرائی تھی۔

بعدازاں نیوز بریفنگ میں سینئر امریکی حکام نے بتایا تھا کہ امریکا، ہنوستان کو این ایس جی گروپ میں شامل کرنا چاہتا ہے اور سیئول میں ہونے والے اجلاس میں ہندوستان کی بھرپور حمایت کرے گا۔

48 رکنی این ایس جی گروپ کا سالانہ اجلاس 23 اور 24 جون کو شمالی کوریا، سیئول میں ہوگا، جس میں ہندوستان کی رکنیت کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔

پاکستان نے گزشتہ ماہ ویانا میں نیوکلیئر سپلائرز گروپ ( این ایس جی) کی رکنیت کے لیے باقاعدہ طور پر درخواست جمع کرائی تھی۔

یہ پڑھیں: این ایس جی میں شمولیت: ہندوستان کا سب سے بڑا مخالف چین

چین کا موقف ہے کہ تمام ممالک کو این اسی جی گروپ میں شمولیت کی پیشکش کرنا چاہیے، ان خواہشمند ممالک سے اس گروپ میں شمولیت کرنے سے پہلے این پی ٹی معاہدے پر دستخط کرائے جائیں، کیونکہ کسی بھی ملک کو جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی اجازت نہیں دی جاسکتی، کسی ایک ملک کو این ایس جی گروپ میں شامل کرنے سے خطے میں ملکی سالمیت اورطاقت کا توازن بگڑنے کا خطرہ ہے۔

چین کا مطالبہ ہے کہ اگر امریکا اور دیگر ممالک ہندوستان کو این پی ٹی معاہدے سے مستثنیٰ قرار دے کر این ایس جی گروپ میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو وہ پاکستان کے لیے بھی ایسا قانون بناکر اس گروپ میں شامل کریں تاکہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن برقرار رہے۔

دوسری جانب چین کی سخت مخالفت کے باوجود امریکا نے واضح الفاظ میں این ایس جی گروپ کے اجلاس کے دوران ہندوستان کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔

جب مارک ٹونر سے اس حوالے سے سوال کیا گیا کہ امریکا کی حمایت سے روایتی حریف ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہوجائیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی سرزمین سے ہندوستان میں دہشت گردی کے منصوبے بنائے جاتے ہیں، پاکستان کو ہنوستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان براہ راست مذاکرات اور عالمی تعاون سے ہی تعلقات میں بہتری آسکتی ہے۔

ٹونر نے بتایا کہ صدر براک اوباما اوروزیر اعظم نریندر مودی نے وائٹ ہاؤس اجلاس میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ امریکی وفد نے حال ہی میں افغانستان کی موجودہ صورتحال پر پاکستان سے بات چیت کی ہے، جس میں امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت کا موضوع بھی زیرِبحث آیا تھا۔

مارک ٹونر کا کہنا تھا کہ ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ ان علاقوں میں مشترکہ کارروائی کے حوالے سے بات چیت کررہے ہیں، ہماری توجہ ان علاقوں میں امن قائم کرنا ہے اور افغانستان میں امن کا قیام اور خوشحالی دہشت گردی کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔

یہ خبر 11 جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔