پاکستان

امریکا افغانستان میں ٹی ٹی پی ٹھکانوں کو ہدف بنائے، آرمی چیف

جنرل راحیل نوشکی ڈرون حملے پر تحفظات کا اعلان، افغانستان میں ملافضل اللہ کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنانے کا مطالبہ

اسلام آباد: چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے امریکی وفد سے اہم ملاقات کے دوران افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا۔

انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف نے کابل میں امریکی افواج کے کمانڈر اور امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان و پاکستان رچرڈ اولسن سے ملاقات کی۔

ملاقات میں علاقائی سلامتی کی صورتحال پر غورکیا گیا جبکہ آرمی چیف نے 21 مئی کے ڈرون حملے پر امریکی وفد کو اپنے شدید تحفظات سے آگاہ کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف کی افغان صدر،امریکی فوجی قیادت سے ملاقات

جنرل راحیل شریف نے کہا کہ امریکی ڈرون حملہ پاکستانی خودمختاری کی شدید خلاف ورزی تھا، ایسے حملے پاک امریکا تعلقات اور باہمی اعتماد کے لیے معاون ثابت نہیں ہوں گے۔

آرمی چیف نے مطالبہ کیا کہ افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ٹھکانوں پر بھی حملے کیے جائیں اور ملا فضل اللہ کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا جائے۔

آرمی چیف نے کہا کہ "را" اور افغان انٹیلی جنس کی سرگرمیوں کو برداشت نہیں کریں گے، پاکستان 4 ممالک کے فریم ورک کے تحت افغانستان میں طویل المدتی امن کے لیے پرعزم ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ملاقات میں افغانستان کے امن اور مفاہمتی عمل پر بھی بات چیت کی گئی۔

افغانستان میں امریکی فوجیوں کے اختیارات میں اضافہ، اوباما نے منظوری دے دی

دوسری جانب امریکی صدر اوباما نے افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کے کردار میں اضافے کے منصوبے کی منظوری دے دی، اب امریکی فوج طالبان کیخلاف جنگ میں زیادہ فعال کردار ادا کرسکے گی۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ دفاع کے دو سینئر عہدے داروں نے بتایا کہ اس فیصلے سے امریکی فوج افغانستان میں زیادہ بہتر طریقے سے فضائی قوت استعمال کرسکے گی۔

گزشتہ ہفتے امریکی ریٹائرڈ جنرلز اور سینئر سفارتکاروں نے صدر اوباما پر زور دیا تھا کہ وہ امریکی فوج کے کردار میں اضافے کی منظوری نہ دیں، انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اس سے افغان طالبان کے خلاف جنگ متاثر ہوسکتی ہے۔

نئی پالیسی کے تحت افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن یہ فیصلہ کرسکیں گے کہ امریکی فوجی کب روایتی افغان فورسز کے ساتھ مل کر لڑ سکیں گے، اب تک امریکی فوجی صرف افغان اسپیشل فورسز کے ساتھ مل کر مقابلہ کرتے رہے ہیں۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کے اختیارات میں اضافے کے باوجود صرف ان موقعوں پر امریکی فوجی میدان جنگ میں اتریں گے جب ان کی شمولیت کے اسٹریٹجک اثرات مرتب ہوسکیں گے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔