خواجہ آصف صاحب، صنفی تعصب معمولی بد تمیزی نہیں
ضروری یہ نہیں کہ میں تحریک انصاف کا کارکن نہیں ہوں — مگر جس طرح ہماری قومی اسمبلی میں خواتین سے جو ناگوار رویہ رکھا گیا اس پر اگر آپ آواز اٹھائیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ تحریک انصاف کے حمایتی ہیں۔ تاہم یہاں ضروری بات یہ ہے کہ آپ اور میں اس پورے معاملے پر کہاں کھڑے ہیں۔
تین دن پہلے وزیر دفاع خواجہ آصف نے تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی کے لیے بری زبان استعمال کی۔ ایسا ناگوار رویہ ایک ایسے وزیر کے لیے قطعی طور پر نامناسب ہے جو انتہائی معتبر وزارت رکھتے ہوں اور انہیں ایسے منصب کی ذمہ داری سپرد کی گئی ہو جہاں مشتعل صورتحال کے دوران بھی تحمل قائم رکھنا ہوتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی رکن اسمبلی کے خلاف خواجہ آصف نے قابل نفرت، صنفی تعصب سے بھری زبان استعمال کرتے ہوئے کہا۔ '' کوئی اس ٹریکٹر ٹرالی کو تو چپ کراؤ''
مزید پڑھیں: خواجہ آصف نے شیریں مزاری کو ’ٹریکٹر ٹرالی‘ کہہ دیا
ایک عینی شاہد کے مطابق، انہوں نے شیریں مزاری کو مزید نازیبا انداز میں کہا کہ، ''آپ مرد کی طرح بولتی ہیں، اپنی آواز زنانہ بنائیں''۔
اپنے کردار میں ذرا برابر بھی شرمساری اور اپنے لہجے میں ندامت کا اظہار کیے بغیر اپنے لبوں پر بناوٹی مسکراہٹ سجائے وزیر نے دو ٹوک کہا کہ وہ اپنے ناگوار کلمات پر معافی نہیں مانگے گے اور اپوزیشن کو طمطراق سے چیلنج کردیا کہ ''انہیں جو چاہے کرنا ہے وہ کر لیں''۔
اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے ممبران خواجہ آصف کی تقریر میں رکاوٹ ڈال رہے تھے۔ ڈیکورم کو بحال رکھنے میں ان کی کوتاہی پر بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔
افسوس کے ساتھ خواجہ آصف اطمینان سے اپنی تقریر کا سفر جاری رکھنے کے بجائے کیچڑ سے بھڑی ایسی سڑک پر گامزن ہوگئے جس پر چلنے کی توقع قوم کے نمائندگان سے نہیں ہوتی۔ خواجہ آصف کے ان ناگوار کلمات پر ان کے ساتھی ممبران اسمبلی نے اپنے عہدوں اور منصب کا خیال کیے بغیر ڈیسکیں بجا کر اور شور مچا کر ان کی بھر پور تائید کی۔
کچھ ممبران کو بلند آواز میں شیریں مزاری سے ''آنٹی بیٹھ جائیں!'' کہتے ہوئے سنا جا سکتا تھا، یہ نہ صرف ایک ممبر اسمبلی کی بے عزتی ہے بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر پارلیمنٹ میں موجود صنفی تعصب کے کلچر کی ایک تصویر ہے۔
اس صنفی تعصبانہ کلچر پر کسی قسم کا اقدام اٹھانے کے بجائے قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے شیریں مزاری کو ہی قصور وار ٹھہرا دیا اور انہیں اس بات پر جھڑک دیا کہ جب انہیں خاموش رہنے اور بیٹھنے کا کہا گیا تھا تو وہ کیوں خاموش نہ ہوئیں۔
شریں مزاری یا کسی اور خاتون پارلیامانی ممبران کے ساتھ ایسا معاملہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ وہ صنفی تعصبانہ تنقید کا نشانہ پہلے بھی بن چکی ہیں۔
کچھ سالوں پہلے حسن نثار کے ایک دوست نے شیریں مزاری کو بُل بُل کہہ کر پکارا جس پر انہوں نے شیریں مزاری کو بُل بُل کی بجائے بیل پکارنے کا مشورہ دیا۔ مضحکہ خیز انداز میں سیاسی تنقید کرنے والے اکثرو بیشتر شیریں مزاری کے سیاسی اظہار رائے سے زیادہ ان کی ظاہری شخصیت کا تسمخر اڑاتے ہیں۔
قوم کے منتخب کردہ معزز اراکین کی اسمبلی اب ایک اسٹریٹ تھیٹر میں تبدیل ہو گئی ہے جہاں خواتین کو ہمیشہ ان کی آواز، لباس، عمر یا وزن کے بارے میں کسی بھی طرف سے ہونے والی 'جگت' سے محتاط رہنا پڑتا ہے۔
یہ اب ایسی جگہ ہے جہاں ایک پروفیشنل عورت کو بے عزت کرنے کے لیے قہقہے لگا کر اسے آنٹی کا لفظ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے کیونکہ یہ لفظ بڑھاپے اور ساتھ ہی ساتھ دقیانوسی طور پر ایک عام سادہ عورت کو ظاہر کرتا۔
یہ اب ایسی جگہ ہے جہاں مرد خود کو اپنی ہم منصب خاتون ممبران کو سنجیدہ لینے سے پہلے حلیے، لباس اور بات چیت کے انداز جیسی چیزوں کی ہدایت دینے کا حق دار سمجھتے ہیں۔
کل صبح، اپنے ساتھیوں (جن میں اکثریت مردوں کی تھی) کے گھیرے میں ایک ساؤنڈ پروف چیمبر میں آرام سے بیٹھے خواجہ آصف نے شیریں مزاری کے بجائے اسپیکر قومی اسمبلی کے نام ایک معذرت نامہ جاری کر دیا۔
مزید پڑھیں: شیریں مزاری کو 'ٹریکٹر ٹرالی' کہنے پر معذرت
یہ 'نصف معافی' انتہائی ناکافی ہے کیونکہ یہاں بات یہ نہیں ہے کہ ایک اشتعال انگیز بیان بازی سے پارلیمنٹ کا ڈیکورم متاثر ہوا بلکہ ایک خاتون ممبر اسمبلی کو اسمبلی کے فلور پر ہی صنفی تعصب کے ساتھ ذاتی حملے کا نشانہ بنایا گیا۔
یہاں بات ان خواتین پارلیمانی ممبران کی ہے، جنہیں اپنے مرد ہم منصب ممبران کے درمیان کام کرنے کا حق حاصل ہے وہاں انہیں مسلسل ان کے حلیے یا پھر ان کی نسوانیت کو لے کر تنقید کی جاتی ہے۔ اس طرح کے کلچر کی نفی کی سمت میں شیریں مزاری سے براہ راست معافی نہایت اہم پیش رفت ہوگی۔
خواجہ آصف کے حمایتی اس مسئلے کو دو طرفہ شدید بیان بازی قرار دے کر مسئلے کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے کہ شریں مزاری اور خواجہ آصف دونوں ہی ایک دوسرے سے ناگوار لہجے میں گفتگو کر رہے تھے۔ میں تحریک انصاف کے ممبران کو بھی کہوں گا کہ وہ اپنے نامناسب رویے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچیں۔ مگر تعصب، چاہے کسی بھی صورت میں ہو، کو سب سے پہلے ختم ہونا چاہیے۔
صنفی تعصب معمولی بد تمیزی میں شمار نہیں ہوتا۔
ایک دوسرے کی سیاسی جماعت پر کیچڑ اچھالنے کے لیے ہمارے پاس ابھی کافی وقت پڑا ہے۔
لیکن تب تک ہم اپنے منتخب نمائندگان سے یہی توقع رکھنی ہوگی کہ وہ کم از کم قومی اسمبلی میں بہتر انداز میں ڈی کورم قائم رکھیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ سب سے ضروری یہ کہ وہ خواتین سے عزت و احترام سے پیش آنے کے قابل بنیں۔
فراز طلعت پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ وہ سائنس اور مختلف سماجی مسائل پر لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ FarazTalat@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔