پارلیمنٹ میں خواتین کی تحقیر کا طویل سلسلہ
اسلام آباد: جنسی تعصب جس طرح ہمارے معاشرے میں رچ بس گیا ہے شائد اسی طرح یہ پاکستانی سیاست میں بھی اپنی جڑیں مستحکم کرچکا ہے، تاہم پارلیمنٹ میں تسلسل کے ساتھ خواتین کے ساتھ توہین آمیز رویئے کی مثال ماضی میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔
ارکان پارلیمنٹ کو اپنے ادا کیے گئے جملوں کے مضمرات کا پتہ نہیں اندازہ ہے بھی یا نہیں، پارلیمنٹ کے فلور پر بھی جنسی تعصب پر مبنی بیانات عام سی بات بن گئے ہیں۔
مزید پڑھیں:شیریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کہنے پر ’معذرت‘
بہر حال گزشتہ روز وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیریں مزاری کے حوالے سے بیان تو جنسی تعصب سے بھی آگے کی بات تھی، ان کا یہ بیان کھلم کھلا کسی کی بے عزتی کرنے کے مترادف تھا۔
سینئر صحافی نصرت جاوید کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ روایت شیخ رشید احمد نے شروع کی جو کہ اسمبلی میں کئی دہائیوں سے موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں :'خواجہ آصف نے جی ایچ کیو کا غصہ اسمبلی میں نکالا'
خواتین کے ساتھ ہتک آمیز رویہ معمول کی بات بن گیا ہے، خواتین قانون دان اس سلسلے میں پارلیمانی کاکس کی جانب دیکھ رہی ہیں۔
نصرت جاوید نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے پہلے دور حکومت میں رونما ہونے والے 2 واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستانی پرچم سے مشابہہ سبز قمیض اور سفید شلوار پہنے پارلیمنٹ میں داخل ہوئیں تو شیخ رشید نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ ''آپ تو بالکل طوطا لگ رہی ہیں''۔
بے نظیر کو یہ بات ناگوار گزری اور اس بیان کی وجہ سے ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرنے لگا۔
مزید پڑھیں:خواجہ آصف نے شیریں مزاری کو ’ٹریکٹر ٹرالی‘ کہہ دیا
اسی طرح ایک بار نظیر بھٹو زرد رنگ کا لباس پہن کر ایوان میں آئیں، جیسے ہی شیخ رشید تقریر کے لئے اپنی نشست پر کھڑے ہوئے بے نظیر ایوان سے جانے لگیں۔
شیخ رشید نے اپنی تقریر کے دوران وزیر اعظم کے ایوان سے جانے پر احتجاج کیا اور بے نظیر کے حوالے سے ایک ایسا لفظ استعمال کیا جسے راولپنڈی کی گلیوں میں انتہائی تحقیر آمیز سمجھا جاتا ہے۔
اسی روز بے نظیر بھٹو کو گورنر پنجاب سے ملاقات کرنا تھی، جب وہ گورنر کے پاس پہنچیں تو ان کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں، پھر رات کے وقت شیخ رشید پر غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں دہشتگردی کا مقدمہ بنادیا گیا، اس کے بعد کی ساری کہانی تاریخ کا حصہ ہے۔
خود خواجہ آصف بھی پارلیمنٹ میں موجود خواتین کے حوالے سے ناقابل قبول اور توہین آمیز جملے استعمال کرنے کی اپنی تاریخ رکھتے ہیں۔
2002 سے 2007 تک جب ان کی جماعت اپوزیشن میں تھی اس وقت بھی خواجہ آصف حکومتی بنچوں میں موجود خواتین ارکان کو نہیں بخشتے تھے، پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم (ق لیگ) کی بیگم مہناز رفیع بھی خواجہ آصف کا نشانہ بن چکی ہیں۔
بیگم رفیع تھوڑا لنگڑا کر چلتی تھیں، خواجہ آصف نے انہیں "کبوتر" کہنے سے بھی گریز نہیں کیا، البتہ ان کی اس حرکت پر ایوان میں موجود تمام خواتین نے شدید مذمت کی تھی لیکن لگتا ہے کہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے خواجہ آصف پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ اپریل 2015 میں بھی پیش آیا، حکومت اور اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ارکان نے ترقیاتی فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم پر احتجاج کرتے ہوئے واک آئوٹ کیا۔
خواجہ آصف نے یہ موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور یہ کہہ دیا کہ وہ خواتین جو مخصوص نشستوں پر منتخب ہوتی ہیں ان کا براہ راست کوئی حلقہ نہیں ہوتا۔
اپنی ساتھی خواتین ارکان اسمبلی سے خواجہ آصف نے کہا کہ برابری کا سلوک کرنے کا مطالبہ درست نہیں اور انہیں جو فنڈز دیئے جاتے ہیں وہ پارلیمانی کنونشن کی وجہ سے دیئے جاتے ہیں نہ کہ اس لیے کہ آئین ایسا کہتا ہے۔
خواتین ارکان پارلیمنٹ کیلئے نازیبا جملے استعمال کرنے والے خواجہ آصف ن لیگ کے تنہا رکن نہیں۔
جنوری 2015 میں عابد شیر علی نے پیپلز پارٹی کی شازیہ مری کو نشانہ بنایا جب انہوں نے سوال کا جواب دینے کے بجائے ان کی ذات پر تبصرے کرنا شروع کردیئے۔
جون 2015 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی طلال چوہدری نے شیریں مزاری کو "آنٹی" بول کر اپوزیشن کو ناراض کردیا تھا، اسپیکر ایاز صادق نے طلال چوہدری کی سرزنش کی اور ان الفاظ کو فوری طور پر کارروائی سے حذف کرنے کی ہدایت کی۔
رواں برس کے آغاز میں جب پارلیمنٹ میں پاکستان ایئرویز کی تشکیل کے حوالے سے بحث جاری تھی، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے شیریں مزاری کے حوالے سے غیر مہذب جملے استعمال کیے۔
سوال و جواب کے سیشن کے دوران پی ٹی آئی نے شیخ آفتاب سے اسلام آباد ایئرپورٹ پر عالمی معیار کے سیکیورٹی اقدامات کے حوالے سے سوال کیا جس پر وہ غصے میں آگئے اور جواب دیا کہ بیرون ممالک میں ایئرپورٹس پر برہنہ کرکے بھی تلاشی لی جاتی ہے، کیا آپ اس طرح کا عالمی میعار چاہتی ہیں، اس جواب پر حکومتی بنچوں سے تالیاں اور قہقہے گونجنے لگے۔
پارلیمنٹ میں موجود خواتین ارکان ایسے رویوں کی روک تھام کیلئے پر عزم ہیں، تاہم ڈان نے اس حوالے سے خواتین ارکان سے بات کی جن میں سے اکثر بہت زیادہ پر امید نظر نہیں آرہی تھیں۔
ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے ایوان میں جنسی تعصب پر مبنی رویوں سے نمٹنے کے لئے ہونے والے پارلیمانی اجلاس میں خواتین ارکان کی عدم دلچسپی کو انتہائی افسوس ناک قرار دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ خواتین ارکان پارلیمنٹ نے متحد ہوکر ترقیاتی فنڈز کے حصول کے لیے بھی کوششیں نہیں کیں جو ہر رکن پارلیمنٹ کا حق ہے، خواتین کو اس حق سے مسلسل محروم رکھا جارہا ہے۔
نفیسہ شاہ نے برطانوی پارلیمنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب ایک رکن نے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے خلاف ہتک آمیز جملے استعمال کیے تو اسپیکر نے اس رکن سے معافی مانگنے کا کہا اور انکار کرنے پر اسے ایوان سے نکال دیا گیا، تو پھر ہمارے ہاں خواجہ آصف کو اسمبلی میں موجود رہنے کی اجازت کیوں دی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ن لیگ کی خواتین اس معاملے میں دیگر خواتین ارکان کے ساتھ کھڑی ہیں، جب پیپلز پارٹی اقتدار میں تھی تب بھی ہم تمام خواتین متحد تھیں، ہمیں اس بات سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ کون کس جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔
پی ٹی آئی کی منزہ حسن نے بتایا کہ جب میں اور ڈاکٹر نفیسہ شاہ پارلیمنٹ میں خواتین کاکس کی سربراہ شائستہ پرویز سے بات کرنے کے لیے ان کے پاس گئے تو برابر میں بیٹھی ہوئی ماروی میمن بیچ میں کود پڑیں اور کہا کہ اگر مجھے کوئی کہتا کہ میری آواز مردوں والی ہے تو میں تو اسے اپنی تعریف سمجھتی۔
منزہ حسن نے مزید بتایا کہ میں نے ان سے کہا کہ یہ آپ کی ذاتی رائے ہے، لیکن میں ایک عورت ہوں اور مجھے مردانگی میں اپنے لیے فخر ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔
جب نصرت جاوید پر زور دیا گیا کہ وہ پارلیمنٹ میں جنسی تعصب کے ماضی میں رونما ہونے والے واقعات کو یاد کریں تو انہوں نے ایک اور واقعہ سنایا جو ایوب خان کے دور کا تھا۔
نصرت جاوید نے کہا کہ بیگم زاہد خلیق الزماں وزیر ریلویز تھیں، اسمبلی میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے ذمے اتنے کام ہیں کہ میرا ایک پائوں کراچی اور دوسرا راولپنڈٰی میں رہتا ہے، یہ سنتے ہی پچھلی نشست پر موجود کسی رکن نے کہا کہ رحیم یار خان کے لوگوں کو لطف اندوز ہونا چاہیے، اس کے بعد کیا ہو مجھے یاد نہیں۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔