محمد علی25فروری1968کوشکاگو میں بلیک مسلم کنونشن سےخطاب کررہے ہیں، ’نیشن آف اسلام‘کے سربراہ الیاس محمدبھی نمایاں ہیں—فائل فوٹو
محمد علی کے ذریعے خود مذہب اسلام کا عام لوگوں میں تاثر بھی علامتی انداز سے تبدیل ہوا، لوگ اسے قدامت پسند اور صوفیانہ عقیدے کے بجائے اب مغربی طاقت کے خلاف فطری مزاحمت کے طور پر دیکھنے لگے۔
یہ غیر معمولی کہانی گزشتہ نصف صدی میں اسلام کے بارے میں ہے نہ کہ محمد علی کی شخصیت کے بارے میں، تاہم اس حوالے سے بھی کچھ تذکرہ موجود ہے کہ کس طرح پہلے افریقی نژاد امریکی ایتھلیٹ نے حیران کن طور پر اپنی شہرت کو حب الوطنی اور صارفین کے حقوق کے لیے استعمال کرنے کے بجائے مذہبی و سیاسی فعالیت کا پلیٹ فارم بنایا۔
محمد علی نے 1964 میں ’نیشن آف اسلام‘ میں شمولیت کا اعلان کیا، عددی طور پر یہ چھوٹی مذہبی تنظیم امریکی مذہبی منظر نامے سے بہت حد تک الگ تھلگ تھی، علم دین کی رو سے اور معاشرتی بنیادوں پر نیشن آف اسلام اپنی ہیت کے حوالے سے دنیا کے دیگر حصوں میں موجود اسلام سے مکمل طور پر مختلف تھا۔
اگر امریکی مذہبی تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو نیشن آف اسلام بھی دیگر خود ساختہ طریقوں پر عمل پیرا افریقی امریکی مذہبی گروہوں میں سے ایک تھا۔
’نیشن آف اسلام‘
اس تنظیم میں شامل مسلمانوں کی حقیقی وابستگی اسلام سے تھی لیکن ان کے اعمال دنیا کے دیگر حصوں میں موجود مسلمانوں سے قدرے مختلف تھے، وہ قرآن کو عربی میں نہیں پڑھتے تھے نہ ہی اس زبان میں نماز ادا کرتے تھے.
1930 میں شکاگو میں قائم ہونے والی یہ تنظیم عیسائیوں کے پروٹیسٹنٹ فرقے کی تعداد میں اضافے اور عیسائیت کے خلاف باغیانیہ عقائد رکھتی تھی، یہ عیسائیت کو آقاؤں کے مذہب کے طور پر دیکھتی تھی، اس کے بانیان نے تنظیم کے قیام کا جو مقصد بتایا تھا وہ سیاہ فام افراد کو گورے لوگوں سے بلند مقام دلوانا تھا، افریقہ کے حوالے سے ان کی سوچ پیچیدگی کا شکار تھی۔
محمد علی جب اس تنظیم کے رکن بنے، اس وقت تک نیشن آف اسلام جمیکن رہنما مارکوس گاروے کے "پین افریقن ازم" کے نظریئے پر عمل پیرا ہوچکی تھی تاکہ افریقہ کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے جاسکیں کیونکہ غلامی کے شکار افریقی نژاد امریکیوں کا اپنے آباء و اجداد سے ناطہ مکمل طور پر ٹوٹ چکا تھا۔
اگرچہ اس تنظیم میں شامل مسلمانوں کی حقیقی وابستگی اسلام سے تھی لیکن ان کے اعمال دنیا کے دیگر حصوں میں موجود مسلمانوں سے قدرے مختلف تھے، وہ قرآن کو عربی میں نہیں پڑھتے تھے نہ ہی اس زبان میں نماز ادا کرتے تھے۔
گروپ کے انتہائی اہم مفکر اور رہنما الیاس محمد درس دیتے ہیں کہ یہ دنیا 760 کھرب سال قدیم ہے اور گورے لوگ شیطان کی پیداوار ہیں جس کا نام یعقوب تھا، یہ باتیں سنی مسلمانوں، شیعہ اور اسماعیلی فرقے کے نزدیک ناقابل قبول ہیں۔
تنظیم کے اس پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھیں تو یہ بات حیران کن نظر آتی ہے کہ محمد علی کے تبدیلی مذہب نے نہ صرف دنیا بھر کے مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کے تخیلات کو بھی اپنی جانب مبذول کرایا۔
انٹرنیٹ سے قبل کے اس دور میں اخبارات کی شہہ سرخیاں بہت زیادہ اہمیت اور اثر رکھتی تھیں، محمد علی کے تبدیلی مذہب کی ہیڈلائن کچھ اس طرح شائع ہوئی "ہیوی ویٹ کے عالمی چیمئن نے اسلام قبول کرلیا"۔
یہ سرخی اتنی طاقتور تھی کہ یہ بات یکسر نظر انداز ہوگئی کہ محمد علی نے ایک ایسے فرقے میں شمولیت اختیار کی تھی جس کے بارے میں دنیا کے دیگر مسلمانوں نے کبھی سنا نہیں تھا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ سرد جنگ کے دور میں امریکا کی معاشی، ثقافتی اور عسکری قوت نے اس بات کو یقینی بنادیا کہ چیمپیئن امریکی باکسر کی کہانی دنیا بھر میں پہنچے۔
دوسری اہم بات خود محمد علی کا گفتگو کا بے مثال انداز تھا جبکہ ان کی تشہیری ادارے نے بھی انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا، محمد علی کے لیے اسلام قبول کرنا مذہب سے زیادہ سیاسی اقدام تھا۔
انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو خبروں میں رہنے کے لیے استعمال کیا، محمد علی نے جذباتی شاعری، نعروں اور اپنی ولولہ انگیزی سے لوگوں کو متاثر کیا جبکہ عام افراد کو سفید فام لوگوں کے غلبے کے خلاف مزاحمت کا واضح پیغام دیا۔
محمد علی کے اقوال میں تضاد بھی سامنے آیا، ایک جانب وہ کہتے تھے کہ "تتلی کی طرح اڑو اور شہد کی مکھی کی طرح ڈنگ مارو" اور دوسری جانب انہوں نے ویت نام کی جنگ میں امریکی فوج میں شمولیت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا "میں ویتنامی فوجیوں سے لڑنے نہیں جائوں گا"۔
ویت نام کی جنگ ایک کینوس تھا جس پر محمد علی نے مزاحمت کی اپنی تصویر بنائی، محمد علی کی جانب سے ویتنام کے خلاف لڑنے سے انکار امریکی نسل پرستی اور امریکی تشدد کے شکار ویتنامی عوام سے اظہار یکجہتی کی مشترکہ دلیل تھی۔
محمد علی کی گرفتاری، سزا اور پھر بالآخر سپریم کورٹ کی جانب سے بریت نے انہیں دنیا میں نمایاں ترین شخص بنادیا جس نے نہ صرف امریکی حکومت کو چیلنج کیا بلکہ کامیابی بھی حاصل کی۔
ان تمام حالات و واقعات نے محمد علی کو دنیا بھر میں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والی شخصیت کے طور پر متعارف کروایا اور اس بات کا عملی مظاہرہ جمہوریہ زائر کے شہر کنشاسا میں 1974 میں جارج فورمین سے ہونے والی ان کی فائٹ میں نظر آیا۔
محمد علی کو جمہوریہ زائر کے عوام نے چیمپیئن آف افریقہ کا درجہ دیا، خود کو ’سپر پاور‘ رکھنے کے لیے امریکی پالیسیوں کا سارا غصہ بدقسمت فورمین پر نکلا، جب محمد علی نے اپنے حریف کو ناک آئوٹ کرکے فائٹ اپنے نام کی۔
جس بات کا بہت کم اعتراف کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ محمد علی ان اولین عالمی شخصیات میں سے تھے جن کے ذریعے تیسری دنیا میں ظلم کے خلاف مزاحمت اور انقلاب کے لیے اسلام کو بطور اہم ہتھیار دیکھا گیا۔
محمد علی مسلمان ہوگئے تھے جبکہ عملی طور پر وہ ساتھ ہی ساتھ تیسری دنیا میں مغرب کی طاقت اور جنگی جنون کے خلاف مزاحمت کار کے طور پر ابھر رہے تھے۔ ان کی یہ شناخت غریب ممالک میں مسلمانوں اور غیر مسلم دونوں ہی کے لیے قابل ستائش تھی جیسا کہ جمہوریہ زائر میں دیکھا گیا تھا۔
گزشتہ نصف صدی میں اسلامی شدت پسندی کی پیچیدہ تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ محمد علی کے کردار نے یہ باور کرایا کہ اسلام کو بادشاہت، سامراجیت اور مغربی تسلط کے خلاف بطور ہتھیار کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ محمد علی کی امن پسندی 1980 میں اسلام کے نام پر ابھرنے والی شدت پسندی سے بالکل مختلف تھی، یہ عسکریت پسندی فلسطین کی آزادی کی تحریک، ایران کے انقلاب، امریکا کے فنڈ سے ہونے والے افغان جہاد اور دیگر کئی عناصر کی آمیزش سے پروان چڑھی، لیکن شدت پسندی کی ان تمام شاخوں میں ایک بات مشترک تھی اور وہ یہ کہ ان ترقی پذیر ممالک میں آزادی کے لیے اسلام کا نام استعمال کیا گیا۔
محمد علی نے ظلم اور استحصال کے خلاف مزاحمت کی زندہ مثال بن کر دکھایا، انہوں نے آقاؤں کو شکست دینے کے لیے ان ہی کے ہتھیاروں کا استعمال کیا جبکہ کچھ اپنی تدبیروں سے انہیں زیر کیا۔
یہ رپورٹ 7 جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔