انصاف کے استحصال کی کہانی، ایک وکیل کی زبانی
وکلاء برادری میں موجود استحصالی رویوں سے میرا پہلی بار سامنا گزشتہ سال اگست میں کراچی بار ایسوی ایشن میں شمولیت کے بعد ہوا۔
میں مبارک علی نامی ایک ٹائپسٹ سے ملا جس نے مجھے چائے کے کپ پر ایک وکیل اور اس کی کلائنٹ، جو اس کے پاس طلاق لینے کے لیے آئی تھی، کے درمیان تعلق کے بارے میں بتایا۔
وکیل: "آپ اپنی شادی کیوں ختم کروانا چاہتی ہیں؟"
کلائنٹ: "وہ مجھے مارتا ہے، مجھ سے اپنے گھر والوں کے سارے کام کرواتا ہے۔ بچوں کی پرورش میں کوئی مالی مدد نہیں کرتا۔ میں نے گھر کے خرچے برداشت کرنے کے لیے کپڑے سینے شروع کیے۔ جب وہ شراب کے نشے میں ہوتا ہے تو مجھے جنسی تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔"
وکیل: "کتنے افسوس کی بات ہے۔ آپ بالکل میری بہن کی طرح ہیں اور میں ذاتی طور پر اس معاملے کو دیکھوں گا۔ ویسے تو میں ایسے کیسز کے 20 ہزار روپے لیتا ہوں، مگر کیونکہ آپ میری بہن کی طرح ہیں، اس لیے میں آپ سے صرف 10 ہزار روپے لوں گا۔"
کلائنٹ: "وکیل صاحب، میں اخراجات پورے کرنے کے لیے کپڑے سیتی ہوں۔ میرے لیے 10 ہزار روپے بھی بہت زیادہ ہیں۔"
وکیل: "اچھا ابھی کے لیے مجھے صرف 4 ہزار روپے دے دیں۔ مجھے ابھی ایک اور کیس کے لیے جانا ہے۔ آپ شام کو میرے گھر پر آئیں، میں دیکھتا ہوں کہ کیا ہو سکتا ہے۔"
کلائنٹ: "ٹھیک ہے، مگر مجھے دیر ہوجائے گی کیونکہ میں نے اپنے بیٹے کو اس کی خالہ کے ہاں چھوڑنے جانا ہے۔"
شام کو گھر پر وکیل نے بے رحمی سے عورت کو کہا کہ یا تو مزید 6 ہزار روپے دے، یا اس کی جنسی خواہشات پوری کرے۔
مزید فیس ادا نہ کر سکنے پر عورت کے پاس اور کوئی چارہ نہ بچا۔