نقطہ نظر

عمرکوٹ میں حقیقی پاکستان کی تلاش

عمر کوٹ میں چار دنوں کے قیام کے دوران مجھے وہاں نہ پولیس اہلکار دکھائی دیے اور نہ ہی کسی قسم کا عدم تحفظ محسوس ہوا۔

کراچی سے عمرکوٹ (یا امر کوٹ) کا راستہ تضادات پر مشتمل ہے، خاص طور پر جب بات نظاروں کی ہو۔

حیرآباد پہنچنے تک ویران خشک بنجر زمین سفر میں ہمراہ ہوتی ہے، جس کے بعد میرپورخاص کی طرف جانے والی دو رویہ سڑک کے دونوں اطراف چاول، گنے اور گندم کے کھیت، اور ان میں آم اور چیکو کے بکھرے درخت آپ کا استقبال کرتے ہیں، ساتھ ساتھ مویشیوں اور بکریوں کے چھوٹے چھوٹے ریوڑ بھی نظر آتے رہتے ہیں۔

پھر وہ دو رویہ سڑک ایک طرفہ سڑک میں تبدیل ہوجاتی ہے مگر ارد گرد ماحول میں سبزہ زاری آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔

کراچی سے نکلنے کے تقریباً 7 گھنٹوں بعد تاریکی میں عمر کوٹ پہنچا۔ پورا شہر لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا مگر مارچ کے وسط کی وہ شام کافی خوشگوار اور ٹھنڈی تھی۔

قلعے کے اوپر سے عمر کوٹ شہر کا ایک منظر — تصویر امتیاز پراچہ

جو سیاح بنا کسی ریفرنس کے آتے ہیں، یا وہاں ان کے کوئی دوست احباب نہیں رہتے، تو پھر ملک کے دیگر شہروں کی طرح ان کے بہترین سیاحتی گائیڈز رکشے والے ہی ہوتے ہیں۔

کسی بھی نئی جگہ پر ہوٹل کی تلاش مجھے سب سے زیادہ مزیدار مرحلہ لگتا ہے، اور یہاں بھی میری صورتحال مختلف نہیں، مگر ایک اوسط سیاح کو شاید یہ ٹاسک اتنی مزیدار نہ لگے۔

جب بھی کسی قصبے یا شہر میں کوئی پہلی مرتبہ آتا ہے تو وہ شہر یا قصبہ ان پر مکمل طور پر منکشف ہونے سے پہلے ان سیاحوں کو اپنی دو یا تین چیزوں سے متاثر کردیتا ہے۔ ویسے ہی یہاں بھی مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی مخلوط برادریاں (خاص طور پر مسلمان اور ہندو) آپ کی توجہ مرکوز کرتی ہیں، جو وہاں کے ماحول اور زمینی ترتیب میں سمائی ہوئیں ہیں۔

جیسے اس تجارتی ضلعے میں دو ساتھ کھڑے سائن بورڈز کی مثال ہی لیجئے: جہاں ایک پر لکھا تھا 'پروشوتم کھتری ایڈوکیٹ'؛ اور دوسرے پر لکھا تھا 'عبدالعزیز ایڈووکیٹ'، یہی چیز میں نے مختلف دوکانوں اور دوسرے کاروباری مراکز پر بھی دیکھی۔

اللہ والا چوک، عمر کوٹ — تصویر امتیاز پراچہ

عمرکوٹ میں موجود دو سائن بورڈ جو مذہبی ہم آہنگی بھی پیش کرتے ہیں — تصویر امتیاز پراچہ

بڑے شہروں میں ایسی نسلی تکثیریت موجود نہیں ہوتی، مگر پاکستان کے کئی قصبوں میں یہ صفت موجود ہے؛ خاص طور پر دیہی سندھ اور خیبرپختونخواہ میں، جہاں صدیوں سے ایسا معاشرہ جڑا ہوا ہے۔

اس شہر میں مسجدوں اور مندروں کی بہتات ہے۔ میرے رکشے والے اور گائیڈ شاہد نے مجھے وہاں پر موجود ہم آہنگی کے حوالے سے کہا کہ، ''ہم ساتھ ساتھ رہنے میں کوئی اختلاف محسوس نہیں کرتے، بھلے ہی کہیں ایک دوسرے سے تعداد میں کم زیادہ کیوں نہ ہوں۔''

عمر کوٹ میں ایک طویل اور بل کھاتی گلی ہے جہاں بہت ساری جیولری کی دوکانیں ہیں۔

ان دکانوں میں سے زیادہ تر کے مالکان ہندو سنار ہیں جو چاندی کے مخصوص قبائلی زیورات بیچتے ہیں جنہیں تھری خواتین پہنتی ہیں۔

تقسیم ہند کے وقت اس علاقے میں غیر مسلم پاکستانیوں کی تعداد 80 فی صد تھی جو کہ اب اطلاعات کے مطابق کم ہو گئی ہے۔

ان گلیوں میں سے ہی ایک گلی میں ایک دکاندار سے کالی ماتا مندر کا پتہ پوچھا۔ وہاں لے جانے کے لیے انہوں نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص کو پتہ سمجھا کر میرے ہمراہ کردیا، جس نے بڑے تپاک سے ان ہدایات پر عمل کیا۔ مندر ایک بند گلی میں واقع تھا۔

میں نے اجازت مانگی، ''کیا میں اندر جا سکتا ہوں؟''

''جی ہاں''

اس شاندار مندر میں داخل ہوتے ہوئے میں نے پوچھا کہ، ''اگر میں یہاں تصویریں کھینچوں تو کسی کو برا تو نہیں لگے گا؟''

''نہیں کسی کو برا نہیں لگے گا آپ اندر جائیے۔''

عمر کوٹ کی مرکزی بازار میں واقع ذکریا مسجد — تصویر امتیاز پراچہ

کالی ماتا کا مندر، عمر کوٹ — تصویر امتیاز پراچہ

اس شہر کا بوسیدہ ہو رہا قلعہ وہ چیز تھی جو عمر کوٹ میں میری دلچسپی کا باعث بنی تھی، اور ایک تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ مغل شہنشاہ اکبر وہاں سے کچھ کلومیٹر دور ہی پیدا ہوئے تھے۔ حکومت کی جانب سے اپنی تحویل میں لیے جانے سے پہلے عمرکوٹ (یا امر کوٹ) قلعہ ہندو راجپوتوں کی ملکیت تھی جو عمرکوٹ کے رانے تھے۔

اس قلعے کا داخلی حصہ لاہور کے شاہی قلعے کا چھوٹا ورژن سا لگتا ہے جبکہ اندر جا کر موئن جو دڑو کا بہت چھوٹا سا ورژن دیکھنے کو ملتا ہے۔ قلعے اور وہاں واقع میوزیم میں سیاحوں سے زیادہ اسٹاف موجود تھا۔

اس تاریخی جگہ کے بارے میں لکھنے کو کوئی ایسی دلچسپ یا خاص چیز نہیں تھی، سوائے اس بات کے کہ وہاں میوزیم کراچی کے میوزیم سے کافی بہتر حالت میں تھا۔

لیکن یہاں کے لوگوں کے بارے میں آپ بہت کچھ کہہ سکتے ہیں۔ میں نے زندگی کا بیشتر حصہ کراچی میں گذارا ہے، اس لیے مجھے یہاں کے لوگوں اور عمرکوٹ کے باسیوں کے مزاج میں بہت فرق دکھائی دیتا ہے، ایک طرف عمرکوٹ یا اسی جیسے دیگر شہروں مثلاً بہاولپور، خوشاب کا مزاج ہے اور دوسری طرف کراچی، لاہور اور اسلام آباد، یوں لگتا ہے کہ جیسے دو مختلف دنیائیں ہوں۔

ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم پاکستان کے حقیقی چہرے سے، جو کراچی، ملتان، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی اور پشاور کے شہری علاقوں کے مصروف سڑکوں سے پرے بستا ہے، یا تو لاتعلق ہیں یا پھر شاید بے خبر ہیں؛

حتیٰ کہ اب کوئٹہ بھی ویسا نہیں رہا جیسا کہ ہوا کرتا تھا، حالانکہ کچھ سالوں پہلے تک یہ اپنی ٹھنڈک، سرسبز زیارت کے ساتھ گھرانوں کے لیے چھٹیاں گذارنے کی مشہور جگہ ہوا کرتی تھی۔

عمر کوٹ میں چار دنوں کے قیام کے دوران مجھے وہاں نہ وردی میں ملبوس قانون نافذ کرنے والے اہلکار دکھائی دیے اور نہ ہی کسی قسم کا عدم تحفظ محسوس ہوا جو مجھے ان کی یاد بھی ستاتی۔

دلچسپ طور پر آخری دن میں نے آدھا درجن ہانپتے، بھاری بھرکم پولیس اہلکار دیکھے جو بدحواسی کے ساتھ دوسرے شہروں کی جانب رواں بسوں کے سامنے کھڑے ہو کر انہیں روک رہے تھے اور انہیں دھمکا رہے تھے۔

مغل شہنشاہ اکبر کی جائے پیدائش پر نصب بورڈ — تصویر امتیاز پراچہ

عمر کوٹ کا قلعہ — تصویر امتیاز پراچہ

میں اس وقت تک حیران تھا جب تک کہ میں نے سرکاری نمبر والی گاڑی میں ایک سوٹ بوٹ پہنے نوجوان کو نہیں دیکھ لیا تھا، جن کے ساتھ ایک سینئر پولیس افسر بھی براجمان تھے۔ نوجوان بظاہر انہیں کچھ ہدایات دیتا ہوا نظر آ رہا تھا۔

شاید ایک نیا مجسٹریٹ یا ڈپٹی کمشنر ضلعے کے دورے پر نکلا ہوا تھا۔ یہ شو تقریباً 15 منٹ جاری رہا اور پھر سب کچھ 'نارمل' ہوگیا۔

چھوٹے قصبوں اور دیہاتی علاقوں کے لوگوں کی قومی بیانیے میں موجودگی نظر ہی نہیں آتی۔

عمومی طور پر ان کے رہنما اپنے گھرانوں کے ساتھ بڑے شہروں میں مقیم ہوتے ہیں، لہٰذا ان کے سڑکوں، بجلی، پانی اور ہسپتالوں وغیرہ جیسے مسائل بھی نظرانداز رہتے ہیں،

ایسا نہیں ہے کہ دیہی یا چھوٹے شہروں کے باسی مفلس یا لاچار ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ شہری اشرافیہ طبقے کے جبر کے باوجود بھی، جو کہ اصل میں اس ملک کی اقلیت میں شمار ہوتے ہیں، یہ لوگ مہم جو، خود کفیل اور ایک حد تک ترقی پذیر ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ خود کو دیوار سے لگتا دیکھ کر ان علاقوں میں مہم جو جذبے کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ مثلاً، بڑے شہروں کے مقابلے میں میں نے دور دراز پہاڑی بستیوں اور عمرکوٹ جیسے شہروں میں شمسی توانائی جیسے توانائی کے متبادل ذرائع کا زیادہ استعمال دیکھا۔

عمر کوٹ کے لوگ اپنی ہمت اور مذہبی تکثیریت میں ہم آہنگی کے ذریعے باقی دیہی سندھ کی ایک تصویر پیش کرتے ہیں۔

جب تک کہ آپ اپنے شہر کے حسبِ معمول راستوں سے آگے نہیں بڑھتے اس وقت تک آپ پاکستان کے حقیقی دل کو تلاش نہیں کر سکتے۔ بلاشبہ کسی نئی جگہ کی سیاحت اس کے باسیوں کی نظروں سے کرنے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 8 مئی 2016 کو شائع ہوا۔


امتیاز پراچہ

امتیاز پراچہ فری لانس لکھاری اور مترجم ہیں۔ سفر کے علاوہ وہ مختلف اشاعتوں کے لیے سماجی معاشیات، انٹرپرنرشپ اور کلاسیکی موسیقی کے موضوعات پر لکھ چکے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔