توہین مذہب کے الزام میں اسکول ٹیچر گرفتار
مظفر گڑھ: محمود کوٹ کے ایک مسلم اسکول ٹیچر کو طالب علم کے والدین کی جانب سے توہین مذہب کا الزام لگائے جانے پر گرفتار کرلیا گیا۔
سرکاری اسکول میں عربی کے ٹیچر جبریل احمد کو، چھٹی جماعت کے طالب علم دو بھائیوں کو کلاس میں وقت پر نہ آنے پر مبینہ طور پر مار پیٹ کے بعد 14 مئی کو حراست میں لیا گیا۔
بچوں کے والدین نے مظفر گڑھ ضلع کے گورنمنٹ ہائی اسکول گُرمانی کے ہیڈ ماسٹر قاضی محمد اجمل کو ٹیچر کی شکایت کی، جس پر انہوں نے بتایا کہ 40 سالہ ٹیچر کو واقعے کی تحقیقات کے بعد معطل کردیا گیا ہے۔
لیکن اسکول میں شکایت کے چار روز بعد بچوں نے والدین نے جبریل احمد کے خلاف پولیس میں توہین مذہب کی شکایت درج کرائی۔
اسکول انتظامیہ کا کہنا تھا کہ پولیس شکایت سے قبل، ٹیچر کے خلاف اسکول میں توہین مذہب کی کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی۔
بچوں کے والد محمد بلال کی شکایت پر پولیس نے جبریل احمد کے خلاف محمود کوٹ پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کرلی۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) مظفر گڑھ اویس ملک نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ٹیچر کے خلاف مقدمہ ان کی جان بچانے کے لیے درج کیا۔
دوسری جانب ٹیچر کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج ہونے پر اسکول حکام اور سماجی کارکنوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کے قانون کو ذاتی جھگڑوں اور انتقام کے لیے غلط طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب انتہائی حساس معاملہ ہے، جہاں غیر ثابت شدہ الزامات پر بھی مار پیٹ، تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کیا جاسکتا ہے۔
ملتان سے تعلق رکھنے والے اور اس کیس میں جبریل احمد کے وکیل شہباز علی گرمانی کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملزم کے والد فضل الرحمٰن سے بات کی ہے، یہ مقدمہ جھوٹا معلوم ہوتا ہے جو ٹیچر سے بدلہ لینے کے لیے ان کے خلاف درج کرایا گیا اور ایسا بدقسمتی سے پورے ملک میں ہورہا ہے۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔