گاؤں کے لوگ شریف کو الوداع کہنے کے لیے جمع ہوئے ہیں — تصویر سید اویس علی
یہ ڈاکیومنٹری ہمارے نکتہ نظر کو وسیع کرنے کے لیے بہت مفید ہے کیونکہ یہ ملک چھوڑنے سے جڑی دو بڑی غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی ہے.
بیرون ملک میں غیر امکانی حالات
پہلی غلط فہمی یہ ہوتی ہے کہ تارک وطن بیرون ملک میں کام کی اصل نوعیت سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں، خاص طور پر کچھ ایسے ممالک میں جہاں تارکین وطن سے اچھا سلوک نہیں برتا جاتا، لہٰذا وہ نادانی سے خود کو میزبان ملک میں پھنسا ہوا پاتے ہیں۔
مگر شریف کی کہانی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عرب امارات میں پہلے سے مقیم ایک دوست کے ذریعے وہاں کے حالات سے آگاہی رکھتا ہے.
تو کیا اس مسئلے کا بہترین حل بیرون ملک جانے والوں میں ''آگاہی پھیلانے'' کو قرار دیا جاسکتا ہے، یا پھر ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ ریاست اور معاشرے کی ناکامیاں ہیں جن کے نتیجے میں ایسے سماجی اور معاشی حالات پیدا ہو جاتے ہیں جو کئی لوگوں کی ہجرت کا سبب بنتے ہیں؟
یہاں تک کہ اویس جو خود بھی عرب امارات میں بڑے ہوئے ہیں اور متعدد بار تارک وطن مزدوروں سے گفتگو کر چکے ہیں، اپنے نوٹ میں کہتے ہیں کہ انہیں یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ گاؤں میں اس سطح کی آگاہی موجود تھی، پھر بھی شریف کو بیرون ملک بھیجنے کا اجتماعی فیصلہ کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیے: "واپس بھیجے جانے سے مر جانا بہتر ہے"
گو کہ یہ ایک عام فہم بات ہے مگر یہ ایک وسیع تر بحث کو جنم دیتا ہے کہ تارک وطن مزدوروں کو بے وقوف نہیں سمجھنا چاہیے جو زیادہ پیسہ کمانے کی خاطر اپنا ملک چھوڑ آتے ہیں، جبکہ اپنے آگے کھڑی مشکلات سے لاعلم ہوتے ہیں.
غریبوں کو ریوڑ کا مویشی قرار دینا آسان ہے جو جہاں بہتر ذریعہ آمدن دیکھتے ہیں وہاں چلے جاتے ہیں کیونکہ بظاہر یہی تو ان کا واحد مقصد ہوتا ہے۔
مگر حقیقت میں تارکین وطن — جو سماجی انصاف اور عوامی پالیسیوں کے مسائل میں پھنسے دیگر افراد کی طرح ہیں — کو بھی سمجھدار افراد تصور کیا جانا چاہیے جو بیرون ملک جانے سے پہلے نفع و نقصان اور قیمت و فائدے کے تفصیلی تجزیے کے مرحلے سے گذرتے ہیں، مگر ان کا سامنا ان اذیت ناک حالات سے ہوتا ہے جو اکثر ان کے فیصلے پر حتمی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
بیرون ملک جانے کے لیے قرضے
صرف یہی نہیں، بلکہ یہ ڈاکیومنٹری غربت کے اس بدترین جال پر بھی روشنی ڈالتی ہے جس میں یہ لوگ جکڑے رہتے ہیں.
شریف اور اس کے گاؤں کے لوگ غربت کی زندگی گزارتے ہیں جہاں وہ زندہ رہنے کے لیے کھیتی باڑی کرتے ہیں اور زندگی کا چرخہ چلانے لائق پیسہ کما لیتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پورے گاؤں میں ایمرجنسی ضروریات کے لیے اجتماعی طور پر خریدی ہوئی گاڑی کے مالک بھی ہیں۔
مگر انفراسٹرکچر کے مسائل کی وجہ سے فصل کی خراب پیداوار کے پیشِ نظر گاؤں کے بزرگ، گاؤں کے تمام لوگوں کی مالی مدد کے غرض سے شریف کو بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
دبئی میں چند مشکل ماہ گزارنے کے بعد شریف گھر واپس لوٹ آتا ہے جس کے نتیجے میں بیرون ملک جانے کے لیے اٹھائے گئے مالی قرضوں کو چکانے کے لیے نہ صرف اس کے والد کو سخت محنت کے بعد خریدی ہوئی اپنی ملکیت فروخت کرنی پڑی، بلکہ گاؤں والوں کو اپنی گاڑی بھی بیچنی پڑی۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم یہاں ان لوگوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جن کی خوراک ایک روٹی پر مشتمل ہے۔ چنانچہ شریف کی بوڑھی ماں اپنے بیٹے کے لوٹنے پر ظاہری طور پر تو خوش نظر آتی ہیں مگر ان کا مایوسی کے ساتھ کہنا تھا کہ اب جبکہ ہمارے حالات اور بھی خراب ہو گئے ہیں تو وہ اپنے بیٹے کے لوٹنے پر پوری طرح کیسے خوش ہو سکتی ہیں۔
پر اگر شریف کچھ سالوں تک بیرون ملک کام کرنے کی منصوبہ بندی پر قائم رہتا تو بھی گاؤں کی بہبود کے لیے شریف سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں، ان کے پورا ہونے کی تھوڑی ہی امید تھی.
پڑھیے: یورپ کی میٹھی جیل
حقیقت میں زیادہ تر تارکین وطن خود کو ان قرضوں میں پھنسا ہوا پاتے ہیں جو انہوں نے بیرون ملک جانے پر آنے والے اخراجات کے لیے گاؤں میں موجود سود پر قرض دینے والوں سے اٹھائے ہوتے ہیں، جبکہ ڈاکیومنٹری میں اس چیز کو نمایاں نہیں کیا گیا۔