پاکستان

جامعہ کراچی میں طالبہ کو 'ہراساں' کرنے کی نئی انکوائری

جامعہ کراچی میں جنوری 2015 میں پیش آنے والے واقعے کی تحقیقات کی کمیٹی میں شامل بیرونی اراکین نے سماعت کی۔

کراچی : جامعہ کراچی میں ایک سال قبل رپورٹ ہونے والے جنسی ہراساں کیس میں تین اساتذہ اور 2 طالب علموں نے شعبہ سوشل ورک کے اسسٹنٹ پروفیسر کے خلاف بیان قلم بند کروا دیئے۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ کیس کی پہلی سماعت جامعہ کراچی کے اسٹاف کے بجائے بیرونی اراکین نے کی۔

جامعہ کراچی کے رجسٹرار ڈاکٹر معظم علی خان نے بتایا کہ یونیورسٹی کے اساتذہ کی جانب سے کی گئی انکوائری میں ایک استاد کو غلطی کا مرتکب پانے پر سیندیکیٹ کی جانب سے سندھ ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کی عزیز فاطمہ منگی کو انکوائری افسر مقرر کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ عزیز فاطمہ منگی بھی جامعہ کراچی سنڈیکیٹ کی رکن ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی یونیورسٹی میں طالبہ کو’ہراساں‘ کرنے کا ایک اور واقعہ

خیال رہے کہ 2015 میں ایک طالبہ نے سوشل ورک ڈپارٹمنٹ کے پروفیسر کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے کی شکایت کی تھی جس کے بعد وائس چانسلر نے تحقیقاتی کمیٹی کو 10 روز میں اس معاملے کی انکوائری رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

جامعہ کراچی کے رجسٹرار نے مزید بتایا کہ کیس کی باقاعدہ سماعت کے لیے مزید وقت لگے گا اسی لیے تحقیقات کو مکمل کرنے کے لیے وقت کا تعین نہیں کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں انکوائری کمیٹی کے سربراہ پروفیسر شکیل خان، سوشل ورک ڈپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر ندیم اللہ اور پروفیسر نسرین اسلم شاہ نے شرکت کی، جس میں یونیورسٹی کے دو طالب علموں نے دو گھنٹے تک اپنا بیان قلمند کروایا۔

اساتذہ اور طلبہ نے سختی کے ساتھ اپنے پرانے موقف کو دہراتے ہوئے تحفظات کا اظہار کیا کہ کیس سست روی کا شکار ہے جبکہ جامعہ کا استاد کی غلطی ثابت ہوگئی ہے۔

ڈان کو ذرائع نے بتایا کہ کیس میں ملوث مذکورہ ایڈہاک اسسٹنٹ پروفیسر شعبے میں پہلے سیمسٹر کی کلاس کو پڑھاتے تھے ،انھیں ایک سال کے لیے معطل کردیا گیا ہے اور ان سے تمام مراعات بھی واپس لے لی گئی ہیں۔

یاد رہے کیس جنوری 2015 میں پیش آیا تھا جس کی انکوائری کو مکمل کرنے کے لیے جامعہ نے 3 ماہ کا عرصہ لیا جبکہ ابتدائی طورپر بتایا گیا تھا کہ رپورٹ 10 دن کے اندر وائس چانسلر کے پاس جمع کروا دی جائے گی۔

اس معاملے کی تحقیقات جامعہ کے کئی طلبہ اور اساتذہ کی شکایات پر شروع کی گئی تھی۔

یہ خبر یکم جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔