دنیا

ہلمند میں جھڑپیں، 50 افغان پولیس اہلکار ہلاک

لشکر گاہ کے قریب دو روز سے جاری جھڑپوں میں40 اہلکار زخمی بھی ہوئے، پولیس اور فوج کی 22چوک پوسٹوں پر طالبان قابض ہیں،حکام

لشکر گاہ: افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند میں دو روز سے جاری لڑائی میں 50 سے زائد افغان پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ میں مقامی پولیس کمانڈر عصمت اللہ دولت زئی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اتوار کے روز 33 جبکہ پیر کے روز جھڑپوں میں 24 پولیس اہلکار ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوئے۔

ایک اور پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ حالیہ لڑائی کے دوران پولیس اور فوج کی کم سے کم 22 چیک پوسٹوں پر طالبان قابض ہوچکے ہیں۔

افغان فوج کے حکام کا مذکورہ لڑائی کے حوالے سے مؤقف سامنے نہیں آیا۔

مزید پڑھیں: نئے امیر کی قیادت میں افغان طالبان کا پہلا بڑا حملہ

حالیہ جھڑپیں صوبہ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ کے شمالی اور مغربی علاقوں میں جاری ہیں۔

صوبائی دارالحکومت میں مقیم شہریوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے اتوار کے روز رات بھر شہر کے قریب گولہ باری اور مشین گنوں کے فائر کی آوازیں سنی گئیں۔

ایک رفاہی ہسپتال کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے کم سے کم 40 زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی ہیں جن میں سے 30 شہری اور 10 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔

گورنر صوبہ ہلمند کے ترجمان عمر زواک کا کہنا تھا کہ مذکورہ علاقے کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے افغان حکام اقدامات کررہے ہیں۔

خیال رہے کہ گذشتہ کچھ برسوں سے صوبہ ہلمند افغان طالبان کے شدید حملوں کی زد میں ہے، جس کا مقصد یہاں کی حکومت کا خاتمہ ہے، جنھوں نے صوبے میں سیکیورٹی کی صورت حال کو کنڑول کرنے کیلئے نیٹو فورسز کی مدد لے رکھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملا منصور کی طالبان گروپ میں اتحاد برقرار رکھنے کی اپیل

واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے پاکستان کے سرحدی علاقے نوشکی میں امریکی ڈورن حملے میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد طالبان شوریٰ نے ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کو نیا امیر مقرر کیا تھا۔

ملا ہیبت نے اپنے پہلے آڈیو پیغام میں افغان حکومت سے مذاکرات کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے فورسز پر حملے جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

گذشتہ سال جون میں افغان طالبان کے بانی رہنما ملا محمد عمر کی موت کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد ملا اختر منصور کو طالبان کا نیا امیر مقرر کیا گیا تھا، جس کے بعد طالبان اور افغان حکومت میں کشیدگی بڑھ گئی تھی اور ملک کے اس بڑے عسکری گروپ اور حکومت کے درمیان جاری مذکراتی عمل تعطل کا شکار ہوگیا تھا۔

یہ بھی یاد رہے کہ دسمبر 2014 میں افغانستان سے نیٹو اور امریکی فوج کی بڑی تعداد کے انخلاء کے بعد طالبان کی جانب سے افغان فورسز پر حملوں میں شدت آگئی تھی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔