کل کی فردوس ،آج کی جنتِ گم گشتہ: فردوس بیگم
یادوں کے میوزیم میں ایک روشن چہرہ جلوہ افروز تھا ،جس کو ہم بھول گئے ، اُس نے بھی شاید ہم سے نگاہ ہٹالی۔ کوئی کتنی دیر تک انتظار کرسکتا ہے۔ خالی راستے کی وحشت کے واقف کارجانتے ہیں،عروج سے زوال اورتعریف سے نظراندازکیے جانے کے راستے پر ملنے والی تنہائی کتنی اذیت ناک ہوتی ہے۔ ہم نے اپنے بہت سارے فنکار اس راستے میں گنوادیے۔ کوئی کڑوے شربت سے اپنی تلخیاں شیریں کرتے گزرگئے، کسی نے سانس کی ڈوری خود توڑ دی، کوئی تنہائی کے زنداں میں مقید ہوا۔ خود فراموشی کے ملبے میں کتنے فنکار دفن ہوئے، بے شمار۔
پاکستانی فلمی صنعت ہو یا معاشرے کے بے حس رویے، سب اپنی جگہ، لیکن اُن یادوں کا کیا کریں، جہاں روشن چہرے خود کو بھلانے نہیں دیتے۔ ہم بھی کتنے ظالم سماج کا حصہ ہیں،اپنے دور کے آفتاب کو گمشدگی میں گل کرکے ،تاریک تنہائی میں لپیٹ کر،پھر سے نئے روشن چہروں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ کیا ہم صرف عروج اور روشنیوں کے متلاشی ہیں، کیا وہ فنکار جس نے ہمارے دل کی توانائی کے واسطے مسلسل اپنا فن پیش کیا، ہمارے تنہا دل کی خاطر تماشا ہوا، کیا ہم اس کی تنہائی کے کچھ لمحوں کے حصے دار بھی نہیں ہوسکتے؟ شاید نہیں ہوسکتے، تاریخ یہی بتاتی ہے۔