لائف اسٹائل

کل کی فردوس ،آج کی جنتِ گم گشتہ: فردوس بیگم

فردوس بیگم کیرئیر کے ابتدائی دورمیں مشکلات کاشکار ہوئی،لیکن فلم’’ملنگی‘‘سے اس کے اندر معاشرے سے انتقام کاطوفان اٹھا.

یادوں کے میوزیم میں ایک روشن چہرہ جلوہ افروز تھا ،جس کو ہم بھول گئے ، اُس نے بھی شاید ہم سے نگاہ ہٹالی۔ کوئی کتنی دیر تک انتظار کرسکتا ہے۔ خالی راستے کی وحشت کے واقف کارجانتے ہیں،عروج سے زوال اورتعریف سے نظراندازکیے جانے کے راستے پر ملنے والی تنہائی کتنی اذیت ناک ہوتی ہے۔ ہم نے اپنے بہت سارے فنکار اس راستے میں گنوادیے۔ کوئی کڑوے شربت سے اپنی تلخیاں شیریں کرتے گزرگئے، کسی نے سانس کی ڈوری خود توڑ دی، کوئی تنہائی کے زنداں میں مقید ہوا۔ خود فراموشی کے ملبے میں کتنے فنکار دفن ہوئے، بے شمار۔

پاکستانی فلمی صنعت ہو یا معاشرے کے بے حس رویے، سب اپنی جگہ، لیکن اُن یادوں کا کیا کریں، جہاں روشن چہرے خود کو بھلانے نہیں دیتے۔ ہم بھی کتنے ظالم سماج کا حصہ ہیں،اپنے دور کے آفتاب کو گمشدگی میں گل کرکے ،تاریک تنہائی میں لپیٹ کر،پھر سے نئے روشن چہروں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ کیا ہم صرف عروج اور روشنیوں کے متلاشی ہیں، کیا وہ فنکار جس نے ہمارے دل کی توانائی کے واسطے مسلسل اپنا فن پیش کیا، ہمارے تنہا دل کی خاطر تماشا ہوا، کیا ہم اس کی تنہائی کے کچھ لمحوں کے حصے دار بھی نہیں ہوسکتے؟ شاید نہیں ہوسکتے، تاریخ یہی بتاتی ہے۔

مغرب کی فلمی دنیا میں ‘‘مارلن منرو’’ سے ’’الزبتھ ٹیلر‘‘ تک سارے خوبصورت چہروں کی داستان مداحوں کے دلوں پررقم ہے۔ان کے ہاں ’’صوفیہ لورین‘‘سے ’’کیٹ ونسلیٹ‘‘تک خوبصورتی کے تمام عہد ،یادداشت کے نہاں خانوں میں محفوظ ہیں۔ ان کے چہروں کے لیے ابھی تک داد و تحسین کاشور تھما نہیں۔ فن کے منچ پر ان کی ادائیں محوِ تماشااورعاشقانِ دلفریباں، ہمہ تن گوش اورسرتاپا گم، کیا نصیب ہے ان فنکاروں کا۔

ہندوستانی سینما میں بھی’’ میناکماری‘‘سے’’مدھوبالا‘‘تک ’’مادھوری ڈکشٹ‘‘سے ’’ہماقریشی‘‘تک تما م حسین چہرے دلوں کی دھڑکنوں میں اترگئے،اُن کی ادائیں فلم بینوں کی زندگی پر نقش ہیں،وہ سراپاحسن تمام چہرے ہندوستانی فلمی صنعت کی جمالیات کا نصاب ہیں،جس میں ماضی کی حسین یادوں کاذکر ہے اورحال کاتذکرہ بھی۔ ہمارے ہاں پاکستانی فلمی صنعت میں بھی، اپنی مثال آپ، حسن وجمال کادوسرانام ’’فردوس بیگم‘‘ تھیں اور ہیں،جنہیں ہم نے بھلادیا، شاید وہ بھی ہم سے روٹھ گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے، ان دنوں وہ خود فراموشی کے اُس مرحلے میں ہیں،جہاں سے انہیں اپنی بھی خبر نہیں آتی۔

پاکستانی فلمی صنعت کا یہ روشن اور نہ بھولنے والا ’’فردوس بیگم‘‘کاچہرہ وہ ہے،جس نے سرخ روشنیوں کے بازار میں آنکھ کھولی،اس کی زندگی اپنی ذات میں رشتے کے نام پر ایک طمانچہ تھا،مگر اس نے دیدہ دلیری سے سہہ لیا۔محرومی،تنہائی اوراداسی جیسی کیفیات ،اس کے بچپن کے کھلونے تھے،جذبات کاایک طوفان اس کے اندرضبط کے سہارے پررکاہوا تھا،جب قدرت نے اس کو فلمی صنعت میں داخل ہونے کاموقع دیا،تویہاں بھی ستم ظریفی اس کامقدربنی۔روشن چہر ے کو بجھانے کی کوشش کی گئی،مگرجس کا دل بجھ چکاہو،پھراسے کون سی بادِگمراہ پریشان کرسکتی ہے۔ایک طرف زمانہ اس کے خلاف ڈٹا ہواتھا،دوسری طرف وہ اکیلی تھی،ہمراہ صرف اس کاحسن وجمال تھا،وہ بھی دشمنی کامستند حوالہ بنا۔چہرے اورجمال کاجادو چلا،توکوئی توڑ نہ ہوا،وہ دیکھتے ہی دیکھتے فلم بینوں کے دل اورفلمی صنعت کی اسکرین پر چھاگئی۔اس کے حسن کی تاب نہ لانے والے لاتعداد تھے۔

فردوس بیگم اپنے کیرئیر کے ابتدائی دورمیں مشکلات کاشکار ہوئی،لیکن فلم’’ملنگی‘‘سے اس کے اندر معاشرے سے انتقا م کاطوفان اٹھا،جذبات کے تمام بند ٹوٹ گئے،فلم بین اس کی اداکاری کی رو میں ایسا بہہ گئے،کسی نے اس کا چہرہ دیکھ کر دانتوں تلے انگلیاں دبائیں،کوئی اس کے اداکیے ہوئے مکالموں کی ادائی میں مجسم ہوا۔ فلم ’’ہیررانجھا‘‘میں اس نے ہیر وارث شاہ کی ’’ہیر‘‘کاروپ دھارلیا،ہر نسل کے رانجھے اپنی ہیر کاعکس اس کے سراپے میں دیکھتے تھے۔فلم ’’انسانیت‘‘کی اس اداکارہ کادل پگھلاتواس نے زمانے کومعاف کردیا،مداحوں کے لیے اپنے فن کی ہوکررہ گئی۔محبت کی،جدائی برداشت کی،دھوکے سہے،کوئی محبوب بن کرآیا،کسی نے رانجھاہونے کادعوی کیا،کسی نے شادی کی اور کسی نے زندہ درگو،ایک عورت نے مردکے کتنے روپ سہے۔فردوس بیگم کی زندگی درد کی ایک داستان ہے،جس کو نہ کبھی فلمایاگیا،نہ اسے کسی تخلیق کارنے لکھا۔اس کے کرداروں میں رنگ بھرنے والا مصورابھی تک دستیاب نہیں ہوا۔

فردوس بیگم نے تقریباً 150فلموں میں کام کیا،جس میں سے 130پنجابی ، 20 اردو اور3پشتوفلمیں تھیں۔اس کی فلموں کے گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔اس کے اداکیے ہوئے مکالمے محبت کرنے والوں کے لیے حرف آخر تھے۔اس کے چہرے کے اتارچڑھاؤ اورمجسم سراپے کے زیروبم قیامت سے کم نہ تھے،جس کی تاب لانا ہرایک کے بس کی بات نہ تھی۔پاکستانی فلمی صنعت میں کتنے چہرے طلوع وغروب ہوئے،مگردل پر نقش ہوجانے والوں کی تعداد میں سرفہرست نام ’’فردوس بیگم ‘‘کاہے۔

اس کامیاب عورت اورفنکارہ کے کیرئیر کی ناکامی کی وجہ بھی ایک عورت ہی بنی،وہ ملکہ ترنم ’’نورجہاں‘‘تھی۔اس کے شوہر’’اعجازدرانی‘‘نے جب ’’ہیررانجھا‘‘میں ’’فردوس بیگم‘‘کے ساتھ کام کیا،تواس حسن کے اسیر ہوگئے،فردوس بیگم محبت کی دستک پر کبھی دروازہ بندنہ رکھ پاتی تھی۔زندگی سے اس کو نرمی کی سزا ملی،نورجہاں نے اس کی کسی بھی فلم میں گانے سے انکار کردیا،یہ وہ زمانہ تھا،جب نورجہاں کی آوازفلموں کی کامیابی کی ضمانت تھی۔فلم ساز بھی مادیت پرست تھے،انہوں نے اپنی توجہ کا رخ بدل لیااوریوں تنزلی ’’فردوس بیگم ‘‘کی کامیابی کاراستہ کھوٹاکرنے لگی۔اس کے بعد فردوس بیگم کے دل میں ،معاشرے کے لیے نفرت پھر سے پلٹ آئی ،اذیت میں وہ موڑ آیا کہ اس نے بے رحم اور خود غرض معاشرے سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔

کتنا بے رحم معاشرہ ہے،زندہ عورت اور عظیم فنکارہ کو گمنامی میں ایسا دفن کیا،جس پر یہ گمان ہوتاہے،اب وہ ہمارے درمیان نہیں،وہ اپنی ستم ظریقی کا قصہ کہے بھی تو کس سے ،یہاں لوگ فنکارہ کو روحی بانو کی مثل ،عبرت کانشان بنادیتے ہیں۔فردوس بیگم زمانے کی اس سفاکی سے واقف تھی،اس لیے اپنے لیے تنہائی کا قید خانہ منتخب کیا۔کئی برس گزرگئے،فلمی صنعت عروج وزوال کے مراحل سے ہوکر نئے دور میں داخل ہوگئی،لیکن کوئی نہ جانے ،وہ حسینہ،جس کی آنکھوں کے دیے تاریک دلوں کی ضرورت بن جاتے تھے،وہ آنکھیں کہاں گئیں۔

پاکستان کے اخبارات ،چینل اورفلمی حلقے ایک رسمی تعزیت کے انتظارمیں ہیں کہ خبرآئے،مگر انہیں یاد رہے،’’فردوس بیگم‘‘ابھی حیات ہیں۔جس فنکارہ نے اپنی زندگی کے حسین،روشن اورقیمتی برس اس فلمی صنعت کودیئے،کیااس صنعت سے کوئی آئے گا،جو اس کے دروازے پر دستک دے،وہ محبت کے نام پرہونے والی دستک کوآج بھی پہچانتی ہے،وہ دروازہ ضرور کھولے گی۔

کوئی ہے،جو اس کو تنہائی کے قید خانے سے رہائی دلائے۔کوئی ہے ،جو اس فردوس گم گشتہ کو پھر سے بازیافت کرے۔حسین ہونا اتنی بڑاجرم نہیں کہ کسی کو تنہائی کے سپردکردیاجائے ہمیشہ کے لیے ۔فلمی صنعت کی اس حسین فنکارہ کی عمر قید ہمارے رویے کاعکس ہے کہ ہم کتنے خودپرست ہیں۔جمال،مداح سرائی اورفنکار کے لیے چاہت کا اظہار صرف ایک دھوکہ ہے،جو ہم اپنے فنکار کو دیتے ہیں اورخود کوبھی ۔

فردوس بیگم پاکستانی فلمی صنعت کی مونا لیزاہیں،مارلن منرواورمادھوری بھی۔۔۔حسن کبھی بوڑھانہیں ہوتا،جذبات کبھی ضعیف نہیں ہوتے۔یقین نہیں ہے توکوئی اس جمال پری کے دروازے پر دستک دے کر دیکھے،وہ سماعت کئی دہائیوں سے منتظر ہے،خاموشی کا بوجھ سماعتوں پر لیے،اس امید پرکہ شاید ۔۔۔۔۔۔۔دستک ہونے کوہے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔