نقطہ نظر

نیلم جہلم کے سبز باغ

متعدد نقائص اور خامیوں سے بھرپور اس منصوبہ کی تکمیل بھی توانائی میں خود کفالت کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کر سکتی۔

پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہے جہاں انسانیت کو تباہی سے دوچار کرنے والی قدرتی آفات ہوں یا عوام کو مصائب و مشکلات سے نکالنے کے لیے شروع کیے گئے میگاپراجیکٹس، دونوں ہی حکمران طبقے سمیت متعلقہ اداروں سے وابستہ افسران و اہلکاروں کے مادی و مالی وسائل میں تیز ترین اضافہ کا باعث ہیں۔

پاکستان پانی کی کمی غذائی قلت اور توانائی بحران میں مبتلا ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہونے کے باوجود ممکنہ قحط سالی، معیشت کی تباہی سمیت دیگر مشکلات سے عہدہ برا ہونے کی کوئی سبیل نہیں رکھتا، جبکہ دوسری جانب ہندوستان آمدہ حالات کا ادراک کر کے اقدامات میں جت گیا ہے۔

19ویں صدی میں سر آرتھر کوٹون نے ساﺅتھ انڈیا میں بہنے والے تمام دریاؤں کو آپس میں منسلک کرنے کا تصور دیا، جبکہ 1972 میں ڈاکٹر کے ایل راﺅ نے نیشنل واٹر گرڈ بنا کر دریاﺅں کا پانی آبپاشی و پن بجلی کی پیداوار میں استعمال کرنے اور سیلابوں پر کنٹرول کرنے کا بے نظیر منصوبہ دیا، مگر چند ریاستوں کی مخالفت کے باعث عملدرآمد نہ ہو سکا جس پر معاملہ سپریم کورٹ آف انڈیا میں پیش ہوا۔

31 اکتوبر 2002 کو چیف جسٹس بی این کرپال کی زیرِ سربراہی بینچ نے ہندوستان کے دو مختلف دریائی نظام، یعنی ہمالیائی اور جزیرہ نما (peninsular) دریاؤں کو کو باہم متصل کرنے کی آبزرویشن دی، جبکہ 28 فروری 2012 کو چیف جسٹس ایس-ای کپاڑیہ پر مشتمل بینچ نے فیصلہ دیا کہ ہمالیہ کے 14 اور پیننسلار کے 16 دریاﺅں کو انٹر لنک کر کے مرکزی آبی ذخیرہ بنایا جائے جہاں سے ریاستوں کو ضرورت کے مطابق پانی و بجلی فراہم کی جائے، اور پانی کو سمندر میں گر کر ضائع ہونے سے بچایا جائے، اور یوں ہندوستان نے ایک ایک بوند پانی سے استفادہ کا اہتمام کر لیا ہے۔

وفاقی وزیرِ پانی و بجلی خواجہ آصف کے مطابق پاکستان و آزاد کشمیر میں بہنے والے دریاﺅں سے 60 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جبکہ صرف تقریباً 7,000 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک جہاں مہنگے فرنس آئل پر کم سے کم انحصار کر کے اپنی زیادہ سے زیادہ توجہ ماحول دوست توانائی کے حصول پر مرکوز کیے ہوئے ہیں، تو وہیں پاکستان میں سستی ترین پن بجلی کے بجائے مہنگی تھرمل بجلی پر کک بیکس اور کمیشن کی خاطر دلچسپی ظاہر کی جاتی رہی ہے۔

وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف توانائی میں خود کفالت اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی نوید تین برسوں سے سنا رہے ہیں، جس میں کلیدی کردار 969 میگاواٹ کے نیلم جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ کا بتایا جا رہا ہے۔

اس منصوبے پر 1989 میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے جب کام شروع کروایا تو تخمینہءِ لاگت 15.3 ارب روپے لگایا گیا، مگر سرمائے کی کمی سمیت دیگر عوامل کے باعث منصوبہ تعطل کا شکار ہو گیا۔

جنرل پرویز مشرف نے 2002 میں دوبارہ کام شروع کروا کے 2008 تک تکمیل کا ہدف رکھا. پھر پیپلز پارٹی کی آخری حکومت میں نئے تخمینے کے مطابق منصوبے کی لاگت 274.9 ارب روپے تک پہنچ گئی، مگر کام پھر بھی نہیں شروع ہوا۔

2011 میں یہ منصوبہ ایک چینی کمپنی کو سونپ دیا گیا اور اس منصوبے کی جلد تکمیل کی خاطر واپڈا کی نگرانی میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت 2013 میں سرنگوں کی کھدائی کے لیے 19.5 ارب روپے کی لاگت سے دو ٹنل بورنگ مشینز (ٹی بی ایم) خریدی گئیں۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق ٹی بی ایمز کی خریداری میں 74 ملین ڈالرز کی کک بیکس دی گئیں، جس سے پراجیکٹ کی قیمت میں کم از کم 15 فیصد اضافہ ہوا ہے. یہ معاملہ برسوں سے نیب میں زیر کار ہے مگر اس پر کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آ رہی.

یہ میگا پراجیکٹ متعدد خامیوں سے دوچار ہے۔ اس منصوبے سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت پاکستان سمیت دنیا میں موجود کسی بھی پن بجلی کے منصوبہ سے زیادہ یعنی 4.23 ملین ڈالر فی میگاواٹ ہوگی جس کے باعث 11.17 روپے فی یونٹ بجلی بنے گی۔

جب یہ منصوبہ شروع ہوا تو 1.71 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی ملنی تھی۔ پاکستان میں ہی داسو کی 2.25 ملین ڈالر اور بونجی کی 1.87 ملین ڈالر فی میگاواٹ قیمت رکھی گئی ہے جبکہ نیلم جہلم میں دوگنی ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ اس منصوبہ کو تین طرح کے سنگین خطرات لاحق ہیں.

دریائے نیلم کا پانی نوسیری کے مقام پر ذخیرہ کر کے بذریعہ سرنگ چھتر کلاس لایا جائے گا۔ نوسیری میں جہاں آبی ذخیرہ بنایا جا رہا ہے، وہ لائن آف کنٹرول سے تقریباً 12 کلومیٹر کے زمینی فاصلے پر ہے۔

لہٰذا یہ علاقہ ہندوستانی فوج کے چھوٹے ہتھیاروں کی زد میں ہے۔ مستقبل میں اگر پاک و ہند تعلقات کشیدہ ہوئے اور ہندوستانی فوج کی جانب سے یہ ذخیرہ توڑا گیا تو بجلی سے محرومی و اربوں روپے کے نقصان کے ساتھ مظفرآباد، میرپور اور پنجاب کے بعض شہر سیلابی ریلے سے یقینی طور پر متاثر ہوں گے۔

نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کو دوسرا سنگین خطرہ ہندوستان کی جانب سے شروع کیے گئے کشن گنگا پراجیکٹ سے ہے۔ پاکستان میں پن بجلی کے منصوبے بنتے اور فائلوں کی نذر ہوتے رہے، مگر ہندوستان نے 2007 میں 84 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی لاگت سے 330 میگاواٹ کے منصوبہ پر سنجیدگی سے کام شروع کیا۔

دریائے نیلم پر یہ منصوبہ مقبوضہ کشمیر کے قصبے بانڈی پورہ میں بنایا جا رہا ہے۔ اس منصوبہ کے تحت دریائے نیلم کا پانی 24 کلومیٹر لمبی سرنگ کے ذریعہ وولر بیراج میں ڈالا جائے گا، جس کی وجہ سے نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کا 33 فیصد پانی کم ہو جائے گا، جس سے ماہرین کے مطابق پیداوار میں دس فیصد سے زائد کمی ہوگی۔

ماضی میں بگلیہار ڈیم کے طرح اس منصوبہ کے خلاف بھی پاکستان نے 2010میں عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کیا۔ جون 2011 میں ثالثی عدالت کے وفد نے کشن گنگا ہائیڈل پاور پراجیکٹ اور نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ کا معائنہ کرنے کے بعد 20 دسمبر 2013 کو ہندوستان کو حکم دیا کہ وہ اپنے منصوبے کے ڈیزائن میں ایسی تبدیلی لائے کہ کشن گنگا دریا میں 9 کیوبک میٹر فی سیکنڈ کا قدرتی بہاؤ جاری رہے، اور دریائے جہلم میں پانی کا بہاؤ متاثر نہ ہو۔

مگر مقبوضہ کشمیر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ہندوستان اپنے ڈیزائن کے مطابق کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگر 33 فیصد پانی ہی کم آئے، تو بھی منصوبہ متاثر ہوگا جس کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔

دوسری جانب چیئرمین واپڈا کے مطابق صرف 5 فیصد پیداوار متاثر ہوگی. کیا اس معاملے پر حکام کے پاس کوئی حتمی اعداد و شمار موجود ہیں؟ کیا حکام کو نہیں چاہیے کہ وہ اس معاملے پر ہندوستان کی جانب سے ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیتے رہیں؟

دیگر دلچسپ مضامین


- کوئلے کا لولی پاپ

- آبی مسائل کا ذمہ دار ہندوستان یا خود پاکستان؟

- نیل گگن تلے پاکستان کا نیلم

- نیلم جہلم پراجیکٹ انجنیئرنگ کا شاہکار

تکمیل کے مرحلے میں داخل ہونے والے اس منصوبہ میں تعمیراتی کمپنیاں بھی مالی مفادات کے پیش نظر کوتاہی کی مرتکب ہیں۔ 2005 کے زلزلے کے بعد جاپان کی ترقیاتی ایجنسی جائیکا سمیت دیگر اداروں نے زلزلہ زدہ علاقوں میں موجود پتھر اور بجری کو تعمیرات کے لیے ناقص قرار دیتے ہوئے لارنس پور کی ریت اور مارگلہ کی کرش کو تعمیرات کے لیے لازم قرار دیا۔

نیلم جہلم پاور پراجیکٹ پر بھی ابتدائی ماہ و سال میں یہی ریت اور کرش استعمال ہوتی رہی۔ ماہرین کے مطابق مظفرآباد اور ملحقہ علاقوں میں موجود پتھر سیم جذب کرتے ہیں، جس کی وجہ سے محکمہءِ تعمیراتِ عامہ آزاد کشمیر اپنے ہر ٹینڈر میں لارنس پور کی ریت اور مارگلہ کی کرش کو ناگزیر قرار دے رہا ہے۔

مگر مقامی لوگوں سے بات چیت اور سائٹ پر خود جا کر دیکھنے پر معلوم ہوا کہ واپڈا اور کنسلٹنٹ فرموں نے چینی کمپنیوں کو مقامی پتھر کی استعمال کی نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر اجازت دے رکھی ہے۔

مارگلہ سے ریت کا ڈمپر 60 ہزار روپے اور کرش کا ڈمپر 40 ہزار روپے میں مظفرآباد پہنچتا ہے، جبکہ مقامی پتھر کا ڈمپر صرف 700 روپے میں سائٹ پر پہنچ رہا ہے جس سے کرش اور ریت بنائی جا رہی ہے، جو 5 سے 6 ہزار روپے میں فی ڈمپر تیار ہوتی ہے۔

معمولی سی چھت میں جو ریت اور کرش استعمال نہیں کی جا رہی، وہ اربوں روپے کے پراجیکٹ میں دھڑلے سے استعمال ہو رہی ہے۔ اگر یہ منصوبہ تکمیل کے چند برس بعد ہی رسنے لگ گیا تو ذمہ دار کون ہوگا؟

متعدد نقائص اور خامیوں سے بھرپور اس منصوبہ کی تکمیل بھی توانائی میں خود کفالت کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کر سکتی۔

پراجیکٹ کے اعلان اور تعمیراتی کام کے آغاز سے لے کر اب تک بجلی کی طلب کئی گنا بڑھ چکی ہے اور نیلم جہلم پراجیکٹ کی بجلی جب تک نیشنل گرڈ میں شامل ہوگی، تب تک بجلی کی ضرورت 18 ہزار میگا واٹ سے کئی گنا بڑھ چکی ہوگی۔

اب بھی وقت ہے کہ ہمارے حکام اس پراجیکٹ کو جلد از جلد مکمل کریں، ورنہ ہر گزرتے سال کے ساتھ اس کی افادیت میں کمی اور قیمت میں ایسے ہی بے تحاشہ اضافہ ہوتا رہے گا، جس کا بوجھ غریب عوام کی جیبیں برداشت کریں گی.

ابرار حیدر

ابرار حیدر مظفرآباد، آزاد جموں و کشمیر میں ڈان نیوز ٹی وی کے آؤٹ اسٹیشن رپورٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔