نقطہ نظر

احتساب سے بالاتر محتسب؟

نیب کے اپنے افسران کی اکثریت ایسی ہے جس کا احتساب کیا جانا چاہیے، مگر محتسب کا احتساب کون کرے؟

1999 میں جب قومی احتساب بیورو کا قیام عمل میں لایا گیا تو عوام پرامید تھے کہ اب اس ملک سے کرپشن کا ناسور ختم ہو کر رہے گا مگر شومئی قسمت کہ اب جب زبان پر یہ نام آتا ہے، تو پرانا تاثر خود بخود زائل ہونے لگتا ہے۔

کبھی تو اس ادارے کو مختلف افراد نے اپنے اور اپنی حکومتوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا، تو کبھی اس کو این آر او کے تحت کارروائیاں کرنے سے روک دیا گیا۔ کچھ عرصہ قبل نیب نے سندھ میں کرپشن کے خلاف کارروائیاں شروع کیں تو اس کو بھرپور انداز میں سراہا گیا اور اس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ کریڈٹ سندھ رینجرز کو بھی دیا گیا۔

عام تاثر یہی تھا کہ بس اب کی بار تو یہ ادارہ کرپٹ لوگوں کے پیچھے پڑ گیا ہے اور ان کی خیر نہیں۔ سندھ کے بعد بلوچستان، پنجاب اور پھر خیبر پختونخواہ میں بڑے بڑے مگرمچھوں کو جان کے لالے پڑ جائیں گے اور لوٹی رقم قومی خزانے میں جمع کروانے کے ساتھ ساتھ ان کو سخت سزائیں بھی دی جائیں گی۔

مگر۔

پنجاب کے ایک صوبائی وزیر ﴿جو اس صوبے کی ایک اعلیٰ ترین حکومتی شخصیت کے کارخاص یا فرنٹ مین کے طور پر بھی مشہور ہیں، اور ان کی لین دین سے متعلق ویڈیوز بھی منظر عام پرآ چکی ہیں﴾ کے بارے میں سب کا یہی خیال تھا کہ بس یہ تو اب گئے، اور نیب بھی اس تاثر کو غلط ثابت کرے گا کہ وہ صرف سندھ میں کارروائیاں کر رہا ہے۔

مگر پاکستانیوں کو اس کا انتظار ہی رہا۔ اور تو اور وزیر موصوف نے تو یہاں تک بیان داغ دیا کہ نیب نے میری شہرت کو داغدار کیا ہے اور میرا میڈیا ٹرائل کیا گیا ہے، جس پر میں نیب کے خلاف عدالت سے رجوع کروں گا، مگر یہ بات بھی بیان سے آگے نا جاسکی۔

سونے پر سہاگہ کچھ عرصہ قبل جب وزیر اعظم نواز شریف نے اس ادارے کے خلاف بیان دیا اور اس کے اختیارات میں قانونی و آئینی ترامیم کے ذریعے کمی کی بات کی گئی، تو مجھ جیسے متعدد افراد کی جو اس ادارے سے کچھ بچی کچھی امیدیں وابستہ تھیں وہ بھی دم توڑ گئیں۔

سوچا کیوں نا اس ادارے کے معاملات کو ایکسپوز کیا جائے۔ چیک تو کیا جائے کہ ہر کوئی جو ہر وقت اس ادارے سے امیدیں باندھے بیٹھا رہتا ہے، کیا یہ اس قابل بھی ہے؟

معلوم ہوا کہ اس ادارے کے افسروں کی اکثریت ایسی ہے جنہوں نے نا صرف اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، بلکہ الٹا جن لوگوں کے خلاف شکایات تھیں ان میں سے اکثریت کو مبینہ طور پر ذاتی مفادات حاصل کرکے کلین چٹ دے دی گئی۔

مثال کے طور پر اشرف نامی ایک پٹواری نے چیئرمین نیب کو درخواست دی کہ جنابِ عالی نیب کے دو اعلیٰ افسران ظاہر شاہ اور عبدالماجد نے اس کو بکرا بنا رکھا ہے اور دونوں اب تک اس کو کلین چٹ دینے کے نام پر نا صرف اس سے اپنے رشتے داروں کے نام پلاٹس ٹرانسفر کروا چکے ہیں، بلکہ عبدالماجد صاحب نے تو مال مقدمے میں ایک گاڑی بھی اپنے بھائی کے نام پر ٹرانسفر کروا دی تھی۔

اب یہاں بات ہو رہی ہے مال مقدمے کی تو اسلام آباد میں کرپشن کی شکایات میں جیل میں بند چوہدری دین کو کون نہیں جانتا؟ کون سی ایسی کوآپریٹیو سوسائٹی ہے جو موصوف کی نظر سے نا گزری ہو۔ بہرحال انہوں نے بھی عدالت میں درخواست جمع کروا دی کہ جناب نیب نے ان کے گھر سے لاکھوں روپے کی ملکی و غیر ملکی کرنسی سونا و دیگر قیمتی سامان چھاپے کے وقت قبضے میں لیا تھا، مگر جب فہرست بنائی گئی تو اس میں سے بھاری رقم سمیت اہم قیمتی اشیاء نکال لی گئیں۔

یہ قیمتی اشیاء کہاں گئیں، اس کا تو انہیں بھی علم نہیں، بہرحال اس کی برآمدگی کے لیے ہی تو انہوں نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ اسے کہتے ہیں چوروں کو پڑ گئے مور۔

نیب ترجمان نوازش علی عاصم کے مطابق اس پر انکوائری جاری ہے اور جلد ہی اس کا فیصلہ بھی ہو جائے گا کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ چیئرمین نیب چوہدری قمر اس معاملے پر بہت سنجیدہ ہیں۔

مگر یہ بات بھی نیب اور اسلام آباد کے حلقوں میں زبان زد عام ہے کہ عبدالماجد چیئرمین نیب کے کافی قریب رہے ہیں، تو لہٰذا اب تو ہوا ہے اصل امتحان شروع۔

نیب کی اگر کارکردگی کی بات کی جائے تو ایک زمانے میں اس کے افسران کو رضاکارانہ واپسی اور پلی بارگین کے نام پر بھاری بھرکم کمیشن دی جاتی تھی اور شاید اب بھی دی جاتی ہو، مگر ترجمان نیب اس کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ موجودہ چیئرمین نیب نے یہ طریقہ ختم کر دیا ہے۔

اگر رضاکارانہ واپسی کی بات کی جائے تو 2004 سے اس کے 181 ڈیفالٹرز کے ذمے آج بھی 3 ارب 76 کروڑ سے زائد رقم واجب الادا ہے۔ اس کے ساتھ پلی بارگین کے جو بڑے 33 ڈیفالٹرز ہیں، ان کے ذمے بھی اربوں کی رقم واجب الادا ہے اور ان میں سے اکثریت نے اپنا جرم قبول کرنے کے بعد چند قسطیں لوٹے ہوئے مال میں سے ادا کیں، اور پھر چھو منتر ہو گئے جن کو نیب ناجانے کیوں پکڑنے سے قاصر ہے۔

اور تو اور چیئرمین نیب کے خلاف بھی ماضی میں مقدمات رہے ہیں، اور اہم ترین زیر التواء مقدمات میں وزیرِ اعظم نواز شریف، اسحاق ڈار وغیرہ کے مقدمات بھی شامل ہیں۔

اس ادارے کو فوری طور اپنے اندر احتساب شروع کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر محتسب ہی کرپٹ ہوگا تو پھر احتساب کیسا ہوگا؟

یہ تاثر بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ نیب سیاستدانوں کا 'اپنا ادارہ' ہے، جسے وہ جس کے خلاف چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔

کیا اکیسویں صدی میں پاکستان کے شہریوں کا بلاتفریق شفاف احتساب پر بھی حق نہیں ہے؟

شیراز حسنات

شیراز حسنات ڈان نیوز ٹی وی پر پروگرام ایکسپوزڈ کے میزبان ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: shiraz_hasnat@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔