غیرمسلموں کی نایاب سبیلیں
موضوع سے مراد قطعاً یہ نہیں کہ کراچی میں آباد غیر مسلموں کو گرمی زیادہ لگتی ہے یا کم۔ صرف یہ عرض کرنا ہے کہ کراچی کے غیر مسلموں نے سخت گرمیوں کے موسم میں نہ صرف انسانوں کو ٹھنڈا پانی فراہم کرنے کے لیے سبییلیں قائم کیں، بلکہ ایسی بھی سبیلیں تھیں جو جانوروں کے لیے بنائی گئی تھیں۔
یہ سبیلیں کیماڑی سے لے کر سولجر بازار اور مزارِ قائد کے قریب موجود تھیں مگر اب یہ یا تو غائب ہوگئی ہیں، یا انہیں توڑ کر لینڈ مافیا نے قبضہ کر لیا ہے۔
میں سوچتا ہوں اگر پانی پینے کے لیے سبیل قائم کرنے کی یہ رفتار تقسیمِ ہند کے بعد بھی جاری رہتی تو شاید گزشتہ سال گرمیوں میں ہیٹ اسٹروک کے نتیجے میں کراچی کے تقریباً گیارہ سو افراد ہلاک نہ ہوتے۔
غیر مسلموں کی ان سبیلوں پر لگی ہوئی تختیاں بھی بہت ہی دلچسپ اور قابلِ غور ہیں۔ کہیں کسی وفا شعار بیوی نے اپنے محبوب شوہر کی یاد میں سبیل قائم کی اور شوہر سے محبت کی داستان اس کی تختی پر لکھ دی، تو کسی بیٹے نے اپنی ماں اور باپ سے محبت کا اظہار ایک سبیل بنا کر کیا۔
تو یوں ہم نے شہر بھر میں ایسی سبیلوں کی تلاش شروع کی جو تقسیمِ ہند سے قبل موجود تھیں۔ کچھ کامیابی بھی ہوئی، لیکن ہم سب سے پہلے جس پانی کی سبیل کا ذکر کرنا چاہیں گے وہ کراچی کے پرانے علاقے ٹھٹھائی کمپاؤنڈ میں واقع ہے۔ یہ ڈاؤ میڈیکل یونی ورسٹی کے مرکزی دروازے سے متصل ہے۔
1990 کے قریب جب میں نے سبیل کو دیکھا تھا تو اس کے احاطے میں منشیات کا استعمال کرنے والے فقراء اپنی سرگرمیوں میں مشغول تھے، اور وقتِ ضرورت وہیں پیشاب و پاخانہ بھی کر لیتے تھے۔
1995 کی بات ہے کہ میں وہاں سے گزر رہا تھا تو میں نے دیکھا دس یا پندرہ کے قریب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں وہاں پر کھڑے ہو کر صفائی کروا رہے تھے، اور بڑی چاہت کے ساتھ کچھ کاریگروں کے ساتھ سبیل پر لگے ہوئے پتھر بھی صاف کر وا رہے تھے۔
مجھے خوشی ہوئی کہ کسی کو تو اس سبیل کا خیال آیا جو محبت کی نشانی ہے۔ یہ بچے ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے طالبعلم تھے۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ وہ یہ سب کیوں کر رہے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ یہ نیکی کا کام جتنا بڑھے گا اس کا اتنا ہی فائدہ ہوگا۔
خیر ان بچوں کی سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ انہوں نے سبیل کی بحالی کے لیے اپنی کاوشوں کے حوالے سے ایک چھوٹی سی تخی بھی نصب کر دی۔ لیکن کمال یہ ہے کہ اس پر کسی کا نام نہیں تھا۔ اس تختی پر انگریزی میں لکھا تھا:
”اپلی بائی میر چندانی کی کاوشوں کے تسلسل کے لیے پانی کی اس سبیل کی بحالی ڈاؤ کے گریجوئیٹس کی جانب سے 1995 میں کی گئی۔“
یہ تو تھیں ڈاؤ کے گریجوئیٹس کی کاوشیں، لیکن جس خاتون نے یہ سبیل قائم کی، اس نے اس کے قیام کا ذکر کس محبت بھرے لہجے میں کیا ہے وہ یوں ہے:
”اوم اپلی بائی کی جانب سے اپنے شوہر دیوان دیارام چیلارام میرچندانی آنجہانی سٹی سرویئر کی یاد میں 1927“
یہ تو تھی ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ سے متصل پینے کے پانی کی کہانی۔ لیکن میرا دعویٰ ہے کہ اگر آپ کا وہاں جانا ہو، تو وہاں پیشاب کی بو اتنی ہے کہ آپ پانی تو کیا پیئں گے، کھڑے بھی نہیں ہو سکیں گے۔
جن بچوں نے اس سبیل کو اصلی حالت میں بحال کرنے کی کوشش کی تھی، انہوں نے سبیل کا ظاہری حلیہ تو بحال کر دیا لیکن غالباً پانی کی فراہمی برقرار رکھنے کا طریقہ بھول گئے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بلاگ چھپنے کے بعد شاید ڈاؤ یونیورسٹی کی انتظامیہ کوئی ایسا بندوبست کرے کہ یہاں لوگ پیشاب کرنے کے بجائے ٹھنڈا اور میٹھا پانی پینے لگیں۔