'میں ہر روز زندہ ہوتا اور پھر مر جاتا'
محمود * رات گہری ہونے کا انتظار کرتا تھا۔ جب وادی سوات میں تاریکی کے سائے پھیل جاتے تو محمود دیگر بچوں کے ہمراہ اپنی دادی ' ابائی' کے پاس جاکر پریوں کی داستانیں سنتا جن میں شہزادوں کی بہادری اور پہاڑوں کی بری روحوں کا ذکر ہوتا۔ وہ اپنی ماں مہرو جان کی گود میں سر رکھ کر سو جاتا مگر اب وہ رات سے ڈرتا ہے۔
13 سالہ مالاکنڈ کے پسماندہ علاقے میں پریوں کی کہانیاں سنتے ہوئے بڑا ہوا، ہر صبح وہ اٹھنے کے بعد رات کو نظر آنے والے خواب بیان کرتا۔ اسکول کے وقفے کو وہ ہر کسی کو کہانیاں سنانے کے لیے استعمال کرتا، اب وہ تندور والا بھی ہوسکتا تھا یا کوئی پھلوں کی ریڑھی لگانے والا بھی۔
اس کی پسندیدہ کہانی وہ تھی جس میں ایک پری کا ذکر تھا جو کوہ قاف کی وادی سے آئی تھی، وہ نگر نگر پھرنے والے اس چرواہے کی محبت میں گرفتار ہوگئی جو زندگی کے راستے پر چل کر ایک شہزادہ بن جاتا ہے۔ اس کے پاس ایسی کہانیاں بھی تھیں جن سے وہ دیگر بچوں کو ڈراتا۔
"میری ابائی کہتی ہیں کہ بچوں کو مرگو کانڈہ کبھی نہیں جانا چاہئے، وہاں بری روحیں رہتی ہیں"۔
مرگو کانڈہ سیدو شریف کے قریب پہاڑی کے نشیب میں واقع دریا سے لگنے والا علاقہ ہے جسے والی سوات کے دور میں قاتلوں کو سزا دینے کے لیے متاثرہ خاندان استعمال کرتے تھے۔
اپنے گرد و نواح، اسکول اور بازار میں محمود کو " خوابوں میں رہنے والا لڑکا" کہا جاتا تھا۔