لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین: ہلاکت کا پیغام بننے والا منصوبہ
لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین: ایک ہلاکت خیز منصوبہ
چلیے ایک سفر پر نکل چلتے ہیں۔ ماضی کی ان گذرگاہوں سے اپنا سفر شروع کرتے ہیں۔ جہاں مسکان کی کلیاں نام کی ہی کھلتی ہیں، بس ان بستیوں میں اپنے پیاروں کے بچھڑ جانے کی یادیں ہیں جو اب گھر آنگن کے کونوں میں تلسی کی جھاڑی کی طرح اگتی ہیں۔
شام ہوتی ہے تو اس تلسی کے پودے کی خوشبو ماضی کی کئی مہکتی صبحوں اور ہنستی شاموں کو ذہن میں آباد کر دیتی ہے۔ میں ان بربادیوں اور دکھوں کا آنکھوں دیکھا شاہد ہوں۔ وہ منظر جن کی جڑیں اب تک میری آنکھوں اور ذہن میں پھیلی ہوئی ہیں کسی آکاس بیل کی طرح۔ وہ منظر جو میرے پاس گذرے وقتوں کی امانتیں ہیں، میں کوشش کروں گا کہ ان منظروں کے وجود میں پنپتے دکھوں میں آپ کو بھی شامل کروں، اور آپ میرے شریک سفر رہیں۔
پہلا منظر: مئی 1999
"جمعرات کو طوفان شروع ہوا تھا۔ تیز ہوا اور بارش کا شور اتنا تھا کہ ایک دوسرے کی آواز تک سنائی نہیں دیتی تھی۔ پھر رات کو سمندر کا پانی چڑھ آیا، چار سے چھے فٹ کی لہر..."
یہ بات مجھے وہاں کے ایک مقامی ماہی گیر نے بتائی تھی، اور اتنی ہی بتا سکا تھا کیونکہ سائیکلون کا شور، ڈر اور وحشت اب بھی اس کی سرخ آنکھوں میں بسی تھی۔
مئی 1999 میں 36 گھنٹے چلنے والا سائیکلون، بدین اور ٹھٹھہ کی ساحلی پٹی سے گزر چکا تھا۔ میں بڑی مشکل سے راستوں پر گرے کیکر اور دوسرے درختوں کے بیچ میں سے دس کلومیٹر پیدل چلتا ہوا اس ٹیلے پر پہنچا تھا جس پر ایک درویش کی درگاہ بنی ہوئی ہے۔
میں مغرب کی طرف دیکھتا ہوں جہاں پانی اور جڑوں سے اکھڑے ہوئے درخت پڑے ہیں۔ پھر جنوب کی طرف دیکھتا ہوں جہاں لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (ایل بی او ڈی) کا ٹائڈل لنک ہے۔
پھر مشرق کی طرف دیکھتا ہوں جہاں چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں۔ کچھ بھی اپنی جگہ پر نہیں ہے، دور تک بارشی پانی کی ایک تہہ بچھی ہوئی ہے اور ساتھ میں خاموشی کی بھی۔ لوگ ایسے چل رہے ہیں، خاموش اور سہمے ہوئے، جیسے ان کی زبانوں سے الفاظ کی فصلیں کاٹ دی گئی ہوں۔