نقطہ نظر

یورپ کی میٹھی جیل

پردیس میں اتنا کام کرنا پڑتا ہے کہ اتنا کام اگر اپنے وطن میں کر لیا جائے تو زندگی پاکستان میں ہی خوشگوار ہو جائے۔

میں جب کبھی پاکستان آتا ہوں تو مجھ سے ملنے والوں میں بڑی رغبت سے ملنے والوں میں ایک حلقہ ملک سے باہر ہجرت کرنے کے خواہشمند لوگوں کا ہوتا ہے، ایسے لوگ جو اپنی محرومیوں سے تنگ آ کر اب ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔

سب کی کہانیاں کم و بیش ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ جیسے ملک میں ان کی طرح اب کوئی نہیں سوچتا، جھوٹ، فریب اور بے ایمانی ہے، بنا سفارش اور رشوت کوئی ترقی نہیں، یہاں ان کا اور ان کے بچوں کا کوئی مستقبل نہیں، ان پڑھے لکھے فرسٹریٹرڈ دوستوں کی پریشانیوں کی بہت سی وجوہات سمجھ میں آنے والی ہیں۔

فرانس سے پی ایچ ڈی کرکے آنے والے ایک دوست یہاں اپنے ڈیپارٹمنٹ میں سیٹ نہیں ہو پا رہے. ایچ ای سی کا تقاضا ہے کہ ترقی کے لیے نئے ریسرچ پیپر چھاپو۔ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ہر ریسرچ پیپر میں اس کا نام چھاپو، اور ان کا کہنا ہے کہ یہاں میری لیب میں ایک پی ایچ میٹر تک بھی درست کام نہیں کرتا، ریسرچ کہاں سے کروں؟

میں ان سے یہ پوچھتا ہوں کہ یورپ میں کون سی نوکریاں بھری پڑی ہیں جو جاتے ہی مل جائے گی، وہ کہتے ہیں کہ برتن دھو لوں گا، مگر یہاں رہ کر کام نہیں کروں گا کیونکہ یہاں تحقیق و تخلیق کی قدر نہیں۔

پڑھیے: پاکستانی یونیورسٹیز میں ریسرچ کی بدترین حالت

ایسے ہی ایک ہمارے دوست ہیں جو ڈنمارک سے واپس پلٹ ہیں۔ کچھ خاندانی ذمہ داریوں کی بنا پر لمبے عرصے کے لیے پاکستان آئے، اور اپنا ویزا کھو بیٹھے۔ ان کی اپیل ناکام ہو گئی گو کہ ایک بڑی پاکستانی کیڑے مار ادویات کی کمپنی میں ریجنل سیلز مینجر ہیں، مگر واپس جانے کے خواہشمند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ان سے ڈیلرز کی منت سماجت نہیں ہوتی، میں کسی نہ کسی صورت دوبارہ اپیل کے لیے ان کی مدد کروں۔

ابھی کچھ دن پہلے اپنی یونیورسٹی کے ایک دوست ملے، انہیں بھی اپنے بڑے بھائی کو باہر بھجوانا ہے۔ ان کے بڑے بھائی ایک پاکستانی کمپنی میں مینجر کے عہدے پر ہیں اور ایک لاکھ کے قریب تنخواہ پاتے ہیں، کمپنی کی دی ہوئی گاڑی بھی ان کے پاس ہے، لیکن اب وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے یہاں سے جانا چاہتے ہیں۔

اور آج صبح تو حد ہی ہو گئی۔ ایک انجان نمبر سے فون آیا کہ جی میں فلاں کا والد بات کر رہا ہوں، آپ سے پہلے بھی بات ہوئی تھی۔

مجھے یاد آیا کہ ان کا بیٹا بھی کسی مضمون میں پی ایچ ڈی کر چکا ہے اور کسی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر بھی ہے۔ میرے پاس ڈنمارک آیا تھا اور اسے کسی کام کی تلاش تھی۔

جی جی فرمایئے؟

جی آپ سے مشورہ کرنا ہے۔

جی کہیے؟

وہ جی میرا اب بیٹا باہر نہیں جانا چاہتا۔

میں نے کہا یہ تو بہت اچھا ہے، باہر کیا رکھا ہوا ہے سوائے مزدوریوں کے؟ وہاں مناسب جاب ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور دوسرا یہ کہ آپ کا اکلوتا بیٹا ہے، اگر آپ کے پاس رہ کر آپ کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو اس میں مضائقہ کیا ہے؟

قسم اٹھا کر کہنے لگے کہ وہ بہت خوش ہوں گے کہ ان کا بیٹا کسی اچھی جگہ چلا جائے جہاں جھوٹ، منافقت اور دھوکا نہیں ہے۔ وہ لوگ سچے مسلمان ہیں، بس ایک کلمے کی کمی ہے۔ میری یہ خواہش ہے کہ آپ میرے بیٹے کو سمجھائیں کہ وہ باہر چلا جائے۔

میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک والد کو کیسے قائل کروں کہ اس کے ہونہار بیٹے کا باہر کے ملک میں کوئی خاص سکوپ نہیں، وہ ملک جہاں دفتری زبان انگلش نہیں، کسی کی کمیونیکش کی پی ایچ ڈی کس کام آ سکتی ہے؟ ہو سکتا ہے تھوڑا عرصہ زبان سیکھنے کے بعد اسے کوئی وائٹ کالر آڈ جاب مل جائے جیسے کسی برگر شاپ یا پیزا شاپ پر نوکری وغیرہ، لیکن اس کی تعلیم کے شایان شان جاب ملنا تقریبا ناممکن ہے۔

ابھی اپنی سوچوں کے لئے مناسب الفاظ کی تلاش میں تھا کہ وہ پھر سے بولے ابھی پرسوں ہی کوئی گن پوائنٹ پر میرا پرس اور موبائل چھین کر لے گیا تھا، میں نہیں چاہتا کہ میرا بیٹا بھی میرے جیسے ہی زندگی جئے، ایک سہمی ہوئی زندگی، میں اسے پردیس میں خوشگوار زندگی گذارتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔

میں نے کہا، جب آپ قائل ہیں تو مجھ سے مشورہ کیسا؟

میں خود بھی ایسے ہجوم کا حصہ رہا ہوں، جنہوں نے پاکستان میں اچھی پروفیشنل زندگی پر پردیس کی مشکل زندگی کو ترجیح دی، میرے رابطے میں سینکڑوں پڑھے لکھے پردیسی ہیں، جن کے سامنے مشکلات کی نئی صورتیں ڈراؤنی شکلوں کے ساتھ موجود ہیں۔ ہم زندگی کے بہت سے سال مستقل ویزا حاصل کرنے کی مزدوریوں میں ضائع کر دیتے ہیں، اس کے بعد اچھے نظام کی ایسی لت لگ جاتی ہے کہ واپس پاکستان کے نظام میں شامل ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔

آپ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بیرونِ ملک پی ایچ ڈی کرنے والے اسکالرز سے پوچھ کر دیکھ لیں، جنہوں نے تین چار سال کسی بین الاقوامی یونیورسٹی میں گزارے ہوں، ان کے لیے واپس آ کر پاکستانی اداروں میں کام کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔

اختیارات کی ایسی بھیانک جنگ جس میں آپ بنا کسی گروپ بندی کے اپنا جائز کام بھی نہیں کر سکتے، ایسے میں اگر تیز دوڑنے اور زمانے سے آگے بڑھنے کا عزم بھی پال رکھا ہو تو پرانے سرکاریوں سے مقابلہ کیونکر ممکن ہے؟

ایسے میں یورپ، کینیڈا وغیرہ جانے کا خواب دیکھنے میں مضائقہ کیا ہے؟ ابھی حال ہی میں ہمارے ایک قیمتی دوست امریکا کے ایک تحقیقاتی ادارے کو پسند آئے، اس ادارے نے ان کو گرین کارڈ دلوانے میں بھی مدد دی، اور پچھلے دنوں وہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بانڈ کی رقم واپس ادا کر کے خود کو بانڈ سے آزاد کروا کے امریکا چلے گئے۔

جانیے: پاکستان ایجادات میں اتنا پیچھے کیوں؟

لیکن یہ ان گنی چنی کامیاب مثالوں میں سے ایک ہے جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی اہلیت کو بیرون ملک تسلیم کیا گیا اور وہ وہاں پر ایک اچھی جاب حاصل کرنے میں کامیاب رہے، لیکن ایسے دوستوں کی بھی کمی نہیں جنہوں نے پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کی لیکن اس کے بعد انتہائی معمولی کام کر رہے ہیں، ایسا کام جس کے لیے ان کی تعلیم کی ضرورت ہی نہیں۔

جب ایسے دوستوں سے بات ہوتی ہے تو ہر ایک کے پاس کوئی ذاتی وجہ ہے، ہر ایک کی اپنی وجہ اور توجیہہ ہے، اکثریت کو یورپ ایک میٹھی جیل لگتا ہے، جہاں آدمی اپنی خوشی سے قید رہنا پسند کرتا ہے۔

جب میں ڈنمارک کے دوستوں میں بیٹھتا ہوں تووہ اپنے بچوں کے غیر ملکی اقدار میں رنگے جانے کے خوف سے لرزتے ہیں، جہاں بچے بچیوں کو جوڑوں کی صورت ایک بینچ پر بیٹھنے کی ترغیب دی جاتی ہے، ہمارے دیسی وہاں اسلامی اسکولوں کی تلاش میں رہتے ہیں، اور کئی ایک اپنی بیٹیوں کو ایسے ماحول میں تعلیم دینے کے بھی حق میں نہیں۔

کچھ دوستوں کو یہ بھی گلہ ہے کہ ان کے بچوں اور ان کے ساتھ پہلے درجے کے شہری کا سلوک بھی نہیں ہوتا۔ اگر جمع تفریق کی جائے تو یورپ میں رہنے کے مسائل اتنے نہیں جتنے پاکستان میں ہیں، انسان اپنی انفرادی زندگی بہت سکون سے گذار سکتا ہے، مگر اس سہولت میں اسے اپنے کلچر اور اقدار سے دور رہنے کی تکلیف بھی سہنی پڑتی ہے۔

جو لوگ اس سوچ کے ساتھ یورپ جانے کے خواہشمند ہیں کہ وہاں جاتے ہی زندگی جنت بن جائے گی، ان سے یہی درخواست ہے کہ کسی آسان زندگی کا خواب تعبیر ہوتے بہت وقت لگتا ہے۔

ڈنمارک کو ہی لے لیجیے۔ گرین کارڈ کے حصول پر پابندی عائد کرنے، اور پہلے سے جاری کردہ گرین کارڈز منسوخ کرنے کی تجاویز زیرِ غور ہیں۔ مستقل ویزا حاصل کرنے کے لیے چار سال میں سے تین سال مستقل جاب کی شرط لگا دی گئی ہے، اور ایسے تین سال جن میں آپ کی کم از کم ماہانہ تنخواہ 27 ہزار کرون ہو، اور اتنی ماہانہ تنخواہ پانے کے لیے آپ کو جو محنت درکار ہے، وہ ناممکن تو نہیں لیکن بہت مشکل ہے۔

اس لیے پہلی دفعہ ملک سے باہر جانے والوں کو ایک زور کا جھٹکا لگتا ہے کہ اتنا کام وہ کیونکر کر سکتے ہیں۔ اتنا کام اگر وہ پاکستان میں کر لیں تو ہو سکتا ہے کہ آنے والے زندگی کے سارے سال پاکستان میں ہی خوشگوار ہو جائیں۔

آخر میں ایک یہی مشکل آن پڑتی ہے کہ دو مسئلوں میں کس مسئلے کا انتخاب کیا جائے۔ پردیس کی میٹھی قید کاٹی جائے، یا دیس کی کٹھن آزادی۔ نہ مکمل آرام وہاں، نہ پورا سکون یہاں، بقول غالب:

کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالبؔ

تم کو بے مہریِ یارانِ وطن یاد نہیں؟

رمضان رفیق

رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔