نقطہ نظر

پاکستانی ویزا کا حصول کتنا آسان؟

غیر ملکی سیاحوں کے لیے پاکستانی ویزا کا حصول انتہائی مشکل ہے، جس کی وجہ سے وہ دیگر ممالک کو پاکستان پر ترجیح دیتے ہیں۔

حال ہی میں نے ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے جس کا نام 'پاکستان اِز کالنگ' یا 'پاکستان بُلا رہا ہے' رکھا ہے، جو کہ پاکستان سے جڑے دقیانوسی خیالات کو ختم کرنے کی ایک کاوش ہے۔

میں اس پروجیکٹ کے ذریعے 12 ہزار امریکی ڈالرز اکٹھا کرنے کی امید کر رہا ہوں تاکہ غیر ملکی سیاحوں کو 2017 کی بہار میں مکمل طور پر مفت پورے پاکستان کی سیر کروائی جاسکے۔

اس حوالے سے اب تک مجھے دنیا بھر کے سیاحوں سے متاثرکُن ردعمل دیکھنے کو ملا ہے۔ مفت سیر کی پیش کش کے باوجود بہت سارے لوگ اپنے خرچے پر بھی پاکستان گھومنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے صرف مجھ سے پاکستانی ویزا حاصل کرنے میں مدد کی درخواست کی، کیونکہ انہیں وزٹ ویزا کے لیے کسی پاکستانی/رہائشی یا پھر سیاحتی ویزا کے لیے کسی ٹریول ایجنسی کی جانب سے دعوت نامہ مطلوب ہوتا ہے۔

چونکہ زیادہ تر لوگوں کے عزیز یا دوست احباب پاکستان میں موجود نہیں جو انہیں دعوت نامہ دے سکیں، اس لیے مجبور ہو کر انہیں ٹریول ایجنسی والوں کے پاس جانا پڑتا ہے جو ان سے عموماً 50 سے 60 ڈالر تک مانگتے ہیں، جبکہ یہ رقم ویزا کے علاوہ ہوتی ہے جو پاکستانی قونصل خانے وصول کرتے ہیں۔

دو سال پہلے پاکستان نے آزاد ویزا پالیسی کا اعلان کیا تھا — جس میں سیاحت دوست ملکوں سے آنے والے ان گروپس کو آمد پر ویزا دینے کی پیش کش کی جاتی جن نے ایک مقررہ ٹور آپریٹر کے ذریعے اپنے دورے کو رجسٹر کروایا ہو۔

مگر پالیسی اتنی متاثر کن ثابت نہیں ہوئی کیونکہ تمام سفر گائیڈ کے ساتھ کرنا کافی مہنگا ثابت ہوتا ہے، اور قیمت کا اختیار ٹریول ایجنٹس کے پاس ہوتا ہے۔

مزید برآں یہ کہ پاکستان نے ریسیپروکل (برابری کی بنیادوں پر) ویزا پالیسی کا آغاز کیا تھا جس کا اصول یہ تھا کہ ''ہم آپ کے شہریوں سے اسی طرح پیش آئیں گے جس طرح آپ ہمارے شہریوں کے ساتھ پیش آتے ہیں اور ہم بھی آپ کے شہریوں سے اُتنی ہی ویزا فیس وصول کریں گے جتنی آپ ہمارے شہریوں سے وصول کرتے ہیں۔''

یہ پالیسی پاکستان اور اس کے شہریوں کی عزت نفس کے احترام کا سبب تو بنتی ہے لیکن میں اسے غیر معقول سمجھتا ہوں۔

دیکھیے، پاکستان کی وزارتِ سیاحت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ملک کو "سیاحت دوست جگہ" کے طور پر ظاہر کرنا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ریسیپروکل ویزا پالیسی اس مقصد کے لیے مفید ہے۔

آپ کسی کو اپنے گھر آنے کی اجازت ہی نہیں دے رہے، مگر ان سے آپ کے گھر کی تعریف کرنے کی توقع بھی کر رہے ہیں۔

سیاحوں میں خانہ بدوشوں کی طرح رہنے کا رجحان بہت عام ہے جس کی سب سے بڑی وجہ فری لانسنگ اور آن لائن بلاگنگ ہے۔ میں ایسے سینکڑوں خانہ بدوش سیاحوں سے مل چکا ہوں جو سیاحت کرتے ہوئے سفرنامے لکھ کر پیسے کماتے ہیں یا سفر کرتے ہوئے آن لائن کام کرتے ہیں۔

میں ایسے لوگوں سے بھی ملا ہوں جو پورے پورے سال سیر و سیاحت کرتے ہیں، اور پاکستان بھی گھومنا چاہتے ہیں، مگر ہماری ویزا پالیسی کے تحت تیسرے ملک سے وزٹ ویزا تب تک جاری نہیں کیا جاسکتا جب تک وہ وہاں قانونی طور پر ایک طویل عرصے سے رہائش پذیر نہ ہوں۔

مثلاً اگر کوئی امریکا سے اپنا ورلڈ ٹور شروع کرتا ہے اور کسی ایک ملک مثلاً ایران، ہندوستان یا چین پہنچتا ہے، اور پھر دو ہفتوں کے لیے پاکستان کی سیر کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو اس ملک میں موجود پاکستانی قونصل خانہ اسے یہ کہہ کر واپس لوٹا دے گا کہ انہیں پاکستان کا ویزا صرف امریکا سے جاری کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ امریکی شہری ہیں۔

اس شخص کے پاس پاکستان کی سیر کو چھوڑنے یا پھر ویزا دوست ممالک جیسے سری لنکا یا نیپال جانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں بچتا۔

قدیم تہذیبوں، نیلے ساحلی کناروں، دلفریب پہاڑی سلسلوں اور چار موسموں کی سرزمین پاکستان سیاحت کے لحاظ سے زبردست خصوصیات کا حامل ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم دنیا کو ہماری نسبتاً نامعلوم دنیا میں آنے کی دعوت دیں۔

یہ وقت ہے کہ ہم اپنی ٹورازم اور ویزا پالیسی پر نظرثانی کریں۔ مجھے بھی تھوڑا بہت سیر و سیاحت کرنی نصیب ہوئی ہے اور میرے تجربے نے مجھے یہ بات سکھائی ہے کہ ہم صرف مثبت گفتگو کے ذریعے ہی اپنے ملک کے بارے میں غلط تاثرات کو ختم کرسکتے ہیں۔

ہم جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں، صرف اسی صورت میں احساس ہوتا ہے کہ جو باتیں کسی مخصوص ملک کے بارے میں ہمیں بتائی گئی تھیں، وہ بالکل بھی سچ نہیں تھیں۔

مختلف ممالک کی ویزا اور ٹورازم پالیسیوں کا جائزہ لینے کے بعد میں مندرجہ ذیل تجاویز دینا چاہوں گا۔

1: پاکستان کے دوست ممالک جیسے ترکی، آذربائیجان، ایران، خلیجی ریاستیں، چین، ملائشیا وغیرہ کے لیے بغیر ویزا سفر، یا آمد پر ویزا کی سہولت فراہم کی جانی چاہیے۔

2: تمام ممالک کے لوگوں کے لیے سیاحتی ویزا کے حصول کے لیے لیٹر آف انویٹیشن (ایل او آئی) کی شرط ختم کی جائے۔

3: گلگت، چترال، اسکردو، چلاس، تربت، گوادر، مظفرآباد اور میرپور کے ایئرپورٹس کو بین الاقوامی پروازوں کے معیار کا بنانے کے لیے تعمیر و توسیع کی جائے، اور بین الاقوامی ایئر لائنز کو یہاں آنے کی دعوت دی جائے — خاص طور پر یورپ سے آنے والی پروازوں کا وہاں براہِ راست لینڈ کرنا ممکن بنایا جائے۔

4: قومی ایئر لائن اور نجی ایئر لائنز کو چاہیے کہ وہ مسافروں کو وسطی، جنوبی یا جنوب مشرقی ایشیا سے خلیجی، یورپی ممالک یا امریکا لے جانے کے دوران پاکستانی ایئرپورٹس پر ٹرانزٹ کی سہولیات مہیا کریں، اور ٹرانزٹ مسافروں کی آمد پر تھوڑے وقت کے لیے ٹرانزٹ ویزا حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے، جس میں وہ اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور، سیالکوٹ، کوئٹہ، فیصل آباد اور ملتان جیسے شہروں کی سیر کر سکیں۔

5: سری لنکا، ترکی اور جارجیا کی طرز پر آن لائن ویزا منظوری کا نظام متعارف کیا جائے جو کہ جامع ہوتا ہے، اور سیاحوں اور حکام دونوں کے لیے آسان ثابت ہوتا ہے۔

6: تمام ممالک کے لیے بے تحاشہ ویزا فیس کو کم کیا جائے، اس طرح زیادہ سیاحوں کو متوجہ کرنے میں مدد حاصل ہوگی، اور زیادہ منافع بھی حاصل ہوگا۔

7: اپنے پڑوسی ممالک، جن میں چین، ایران، ہندوستان اور وسطی ایشیا کی ریاستیں (تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، کرغیزستان، قازقستان، روس، آذر بائیجان، بنگلادیش یا بھوٹان) شامل ہیں، ان سے برابری کی بنیادوں پر آسان ویزا پالیسی پر بات چیت کی جائے۔

8: ایئرلائنز کے درمیان اور خاص طور پر پڑوسی ممالک کی ایئر لائنز کے ساتھ مقابلے کو فروغ دیا جائے تاکہ کرایوں میں کمی واقع ہو اور زیادہ مقامات کو کور کیا جا سکے۔ لینڈنگ فیس کم کر دینے سے زیادہ ایئرلائنز، بشمول سستی ایئرلائنز متوجہ ہوں گی۔ اس طرح سیاحوں کی تعداد بڑھے گی اور منافع بھی زیادہ ہوگا۔

9: بین الاقوامی برداری کے تحفظات، بشمول دہشتگردی، اسمگلنگ و دیگر کو دور کیا جائے، جن کی وجہ سے بیرونِ ملک پاکستانیوں کے ساتھ سختی برتی جاتی ہے۔

ثقافتی لحاظ سے پاکستان کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کو مزید قابلِ رسائی بنایا جائے۔ اور میں پرامید ہوں کہ ہماری موجودہ ویزا پالیسیوں پر نظرِ ثانی پاکستان سے جڑے منفی تاثرات کو ختم کرنے کی سمت میں ایک بڑے قدم کی حیثیت رکھتی ہے۔

سید کمال مصطفیٰ

سید کمال مصطفیٰ انجینیئر، بلاگر، اور خود ساختہ سفیرِ امن ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: brown_traveller@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔