قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ—۔ڈان نیوز
قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاناما لیکس کے معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کے معاملے پر کوئی ایسا بڑا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا، لیکن اسے اتنا بڑا بنا دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ نہیں پوچھ رہے کہ پیسا کیسے آیا بلکہ یہ پوچھ رہے ہیں کہ پیسا باہر کیسے گیا؟
مزید پڑھیں: 'وزیراعظم سے استعفیٰ نہیں مانگا، موقع دیا ہے'
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ہم نے 7 سوال کیے جن کے ہمیں جوابات چاہیئے تھے، اس پر ہمیں 'مار' پڑی اور حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ کسی سے ڈکٹیشن نہیں لی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان 7 سوالات نے نئے سوالات کو جنم دیا۔
اس موقع پر خورشید شاہ نے وزیراعظم کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا کہ وزیراعظم کی 12 کمپنیاں تھیں لیکن انھوں نے 23 سالوں میں صرف ایک ارب روپے ٹیکس ادا کیا؟
خورشید شاہ نے وزیراعظم کی جانب سے ٹیکسوں کی ادائیگی ہر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ 14 سالوں میں آپ نے صرف 6 لاکھ ٹیکس ادا کیا۔
اپوزیشن لیڈر مزید کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اپنے بیٹوں کو ملکی قوانین سے مستثنیٰ قرار دیا، اگر وہ ٹیکس نہیں دینا چاہتے تو پاکستان کی شہریت چھوڑ دیں۔
خورشید شاہ کے خطاب کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیر کو وزیراعظم کے خطاب کے دوران اپوزیشن کے واک آؤٹ پر تنقید کی اور کہا کہ 'معلوم نہیں وہ کیٹ واک تھی، بائیکاٹ تھا یا واک آؤٹ تھا، لیکن اچھا ہوا کہ اپوزیشن لیڈر نے اپنے واک آؤٹ کی وضاحت پیش کردی۔'
اپوزیشن کے واک آؤٹ کو 'کیٹ واک' کہنے پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا، جس پر اسپیکر سردار ایاز صادق نے 'کیٹ واک' کا لفظ اسمبلی کارروائی سے حذف کردیا۔
مزید پڑھیں:پاناما لیکس پر مشترکہ کمیٹی بنانے کی تجویز
یاد رہے کہ رواں ہفتے پیر کو قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران وزیراعظم نواز شریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس ٹی او آر بنانے کے لیے مشترکہ کمیٹی بنانے کی تجویز دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا دامن صاف ہے، ہمیں کسی استثنیٰ کی ضرورت نہیں، ہم ہر طرح کے احتسابی عمل سے گزرنے کے لیے تیار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف
واضح رہے کہ پاناما لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیز کے انکشاف کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا، بعدازاں اپوزیشن جماعتیں پاناما پیپرز لیکس میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کی غرض سے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لیے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) پر متفق ہوئیں۔
اپوزیشن جماعتیں 3 رکنی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل چاہتی ہیں، جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کریں۔
اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ کمیشن پہلے وزیراعظم اور ان کے اہلخانہ کے خلاف 3 ماہ کے اندر تحقیقات کرے،جس کے بعد پاناما لیکس میں شامل دیگر پاکستانیوں کے خلاف تحقیقات کا اغاز کیا جائے، جس میں ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پانامالیکس:چیف جسٹس کاکمیشن بنانے سے'انکار'
اس حوالے سے حکومت نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کو جوڈیشل کمیشن کے قیام کے حوالے سے خط لکھا جسے چیف جسٹس نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ جب تک فریقین مناسب ضوابط کار پر متفق نہیں ہوجاتے، کمیشن تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ حکومتی ضوابط کار بہت وسیع ہیں، اس کے تحت تحقیقات میں برسوں لگ جائیں گے اور جس خاندان، گروپ، کمپنیوں یا افراد کے خلاف تحقیقات کی جانی ہیں ان کے نام فراہم کرنا بھی ضروری ہیں۔
اس سے قبل اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں وزیراعظم کے لیے ایک سوالنامہ تیار کیا گیا تھا جس میں ان سے لندن میں موجود جائیدادوں، آف شور کمپنیز اور ٹیکس کی ادائیگی کے حوالے سے 7 سوالات کا جواب مانگا گیا تھا، تاہم وزیراعظم کے قومی اسمبلی میں حالیہ خطاب کے بعد اپوزیشن نے نواز شریف سے مزید 70 سوالات کر ڈالے۔
اپوزیشن کے ٹی او آرز
حزب اختلاف کی 9 جماعتوں کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے لیے 15 ٹی او آرز متفقہ طور پر منظور کیے گئے تھے۔
اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) نے وزیر اعظم سے استعفے کے مطالبے پر اتفاق کیا تھا تاہم قومی وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے اختلاف کے باعث وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ ٹی او آرز میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔
اپوزیشن کے ٹی او آرز میں کمیشن کی جانب سب سے پہلے وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے احتساب کا مطالبہ کیا گیا تھا جبکہ اس کے لیے 3 ماہ کی مدت مقرر کرنے کا بھی مطالبہ شامل تھا۔
پاناما لیکس میں سامنے آنے والے دیگر افراد کے حوالے سے یہ شق شامل کی گئی تھی کہ وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے احتساب کے بعد دیگر لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے جبکہ اس کی تحقیقات ایک سال میں مکمل کر لینی چاہیے۔
• وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کو اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو غلط ثابت کرنا ہوگا۔
• وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ خود کو تحقیقات کیلئے کمیشن کے سامنے پیش کریں۔
• نواز شریف 1985 سے 2016 تک جائیداد کی تفصیلات فراہم کریں۔
• وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کے ذرائع آمدن کیا تھے، کن بینک اکاؤنٹس میں رقم رکھی گئی؟
• کیا اس آمدن پر انکم ٹیکس ادا نہیں کیا جانا تھا؟
• بیرون ملک خریدی گئی جائیدادوں کیلئے رقم کن بینک اکاؤنٹس، کس تاریخ پر ادا کی گئی؟
• کمیشن کو آف شور اکاؤنٹس میں بھیجی گئی رقم کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔
• کیا وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ دسمبر 2000 کے بعد اسٹیٹ گیسٹ تھے؟
• خصوصی کمیشن عالمی فرانزک آڈٹ کیلئے ماہرین کی کمیٹی بھی مقرر کرسکے گا۔
• ماہرین کی کمیٹی آف شور کمپنیوں کیلئے رقم کی مکمل چھان بین کرے گی۔
• نیب اور ایف آئی اے سمیت تمام وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس تحقیقات: 'اپوزیشن کے ٹی او آرز مسترد'
حکومتی ٹی او آرز
اپوزیشن کی جانب سے پیش کیے گئے ٹی او آرز حکومت پہلے ہی مسترد کرچکی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں اپوزیشن کے ٹی او آرز کو تماشا قرار دیا تھا۔
خیال رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے 22 اپریل کو قوم سے خطاب میں اعلان کیا تھا کہ ان کے اہل خانہ پر پاناما پیپرز میں لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا گیا ہے۔
مذکورہ اعلان کے فوری بعد حکومت نے سیچوٹری ریگولیٹری آرڈر (ایس آر او) جاری کیا تھا جس میں پاکستان کمیشن آف انکوئری ایکٹ 1965 کے سیکشن 3 ون کے تحت کمیشن کیلئے 3 افراد کا نام دیا تھا۔
تاہم اپوزیشن نے حکومتی ٹی او آرز کو مسترد کردیا تھا۔
حکومت کی جانب سے کمیشن کے لیے مندرجہ ذیل ٹرمز آف ریفرنس مقررکیے گئے تھے۔
• کمیشن پاکستانی شہریوں، پاکستانی نژاد غیر ملکیوں اور اداروں سے پاناما یا کسی اور ملک میں آف شور کمپنیوں سے متعلق تحقیقات کرسکے گا۔
• کمیشن کو موجودہ یا پھر سابقہ عوامی عہدوں کے حامل افراد سے بھی تحقیقات کا اختیار ہوگا جنہوں نے سیاسی اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے یا اہل خانہ کے قرضے معاف کرائے یا پھر کرپشن، کمیشن یا کک بیکس کے ذریعے کمائی گئی رقم ملک سے باہر بھجوائی۔
• انکوائری کمیشن اس بات کا تعین کرے گا کہ کیا پاناما لیکس کے الزامات کے مطابق کسی پاکستانی قانون کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔
• انکوائری کمیشن کو ٹیکس ماہرین اور اکاونٹنٹ سمیت کسی بھی شخص کو طلب کرنے کا اختیار ہوگا۔ کمیشن کسی بھی قسم کی دستاویز طلب کرسکے گا۔
• انکوائری کمیشن کے سربراہ کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ مجاز افسر کو کسی بھی عمارت یا مقام میں داخلے اور مطلوبہ ریکارڈ کے حصول کے احکامات دے سکے گا۔
• انکوائری کمیشن کی تمام کارروائی عدالتی کارروائی تصور ہوگی۔ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے۔
• تحقیقات کب اور کہاں ہوں گی اس کا فیصلہ انکوائری کمیشن خود کرے گا۔
• کابینہ ڈویژن انکوائری کمیشن کو دفتری خدمات فراہم کرے گا۔
مزید پڑھیں: 'پاناما لیکس پر احتساب کا آغاز وزیراعظم سے'
پاناما لیکس
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ پاناما لیکس میں نواز شریف کے بچوں کے نام پر آف شور کمپنیاں ہونے کے معاملے کا انکشاف ہوا تھا، جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کئی بڑی جماعتوں نے وزیراعظم سے استعفے اور ان کمپنیوں میں منتقل ہونے والی رقم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے۔
آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟
• کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
• کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔
تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔
ان دستاویزات میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل ہیں،اس ڈیٹا میں وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور ہولڈنگز کا ذکر بھی موجود ہے۔
ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، وزیراعظم کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔
یہ بھی پڑھیں: پاناما پیپرز کی دوسری قسط: 259 پاکستانیوں کے نام شامل
اس سلسلے میں وزیراعظم نے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا البتہ اس کمیشن کے ضابطہ کار پر حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔
ضروری نہیں افشا ہونے والی یہ دستاویزات غیر قانونی سرگرمیوں کا ثبوت ہوں کیونکہ برطانوی روزنامہ دی گارجین کے مطابق آف شور ڈھانچہ استعمال کرنا قانونی ہے۔
موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی اس معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: پاناما لیکس: نیب سے تحقیقات کا مطالبہ
دستاویزات کے مطابق، وزیر اعظم نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے علاوہ بے نظیر بھٹو، ان کےرشتہ دار حسن علی جعفری اور سابق وزیرداخلہ رحمان ملک پیٹرو فائن ایف زی سی کے مالکان تھے۔
خیال رہے کہ یو این کمیٹی نے 2005 میں انکشاف کیا تھا کہ یہ کمپنی عراق میں ’تیل کے بدلے خوراک‘ سکینڈل میں ملوث تھی۔
اسی طرح، پی پی پی رہنما آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی جاوید پاشا کا نام بھی کم از کم پانچ آف شورکمپنیوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔
میڈیا مینیجر پاشازی ٹی وی سمیت دوسرے انڈین چینلز سے کاروباری معاہدے کرتے رہے ہیں۔
دستاویزات کے مطابق، لکی مروت کا سیف اللہ خاندان ریکارڈ 34 ایسی کمپنیوں کے مالکان ہیں۔ ان میں سے عثمان سیف اللہ پی پی پی کی ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن ہیں۔
سابق جج ملک قیوم کا، جن کے بھائی پرویز ملک لاہور سے پی ایم ایل-ن کے رکن قومی اسمبلی ہیں، نام دستاویزات میں شامل ہے۔
لیکس میں وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے کم ازکم دو قریبی ساتھی الیاس میراج (پہلی بیوی نصرت کے بھائی) اور ثمینہ درانی (دوسری بیوی تہمینہ درانی کی والدہ) کے نام بھی موجود ہیں۔
لیکس میں بتایا گیا کہ ثمینہ درانی کم از کم تین آف شور کمپنیوں Rainbow Ltd, Armani River Ltd and Star Precision Ltd جبکہ میراج Haylandale Ltd میں بڑے شیئر ہولڈر ہیں۔
تاہم ،میڈیا رپورٹس کے مطابق،لیکس میں شامل تقریباً 200 پاکستانیوں کی اکثریت کاروباری شخصیات ہیں۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔