لائف اسٹائل

ریویو : میراجی کےہمراہ 'ہوٹل'کا احمقانہ سفر

ایک اہم سماجی مسائل پر بنائی گئی کمزور فلم 'ہوٹل' نے پاکستانی سنیما پر کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔

پاکستانی اداکارہ میرا کی حالیہ ریلیز فلم 'ہوٹل' میں ایک مقام پر 'کاشیکا' (یعنی میرا) کا کہنا تھا 'مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی'۔

میرا بھی فلم کو دیکھ کر کچھ یہی خیال رہا۔ فلم 'ہوٹل' دیکھنے کے دوران میں نے کئی مرتبہ اپنا ٹکٹ چیک کیا کہ کہیں میں غلطی سے ڈیوڈ لنچ کی نوجوانی میں بنائی ہوئی فلم تو دیکھنے نہیں آگیا۔ کچھ ایسے مواقع بھی تھے جب میں سمجھ نہیں پایا کہ میں کوئی ایسی فلم دیکھ رہا ہوں جو یہ تو ناقابل یقین طور پر فضول ہے یا پھر بہت ہی سمجھدار۔

میں جب 'ہوٹل' دیکھنے گیا تو میری امیدیں ویسے ہی بہت کم تھیں۔ فلم کی پروڈکشن اونچ نیچ سے بھری رہی اور اسے پاکستان کے سامعین تک پہنچنے کے لیے دو سال سے زیادہ لگ گئے۔ پہلی بار فلم کی کہانی لکھنے والے اور ہدایت دینے والے خالد حسن خان اور مقبول میرا اگر ایک ساتھ کام کریں تو ہمیں اس ہی انداز کی فلم دیکھنے کو ملے گی جہاں تقریباً ہر کردار یہ سوچ کر پریشان ہے کہ ان کے آس پاس آخر ہو کیا رہا ہے۔

فلم کا پلاٹ

یہ فلم 1950 کی دہائی کی ہولی وڈ فلموں کے اس کلچر کا مقامی روپ محسوس ہوتی ہے، جس کا اثر شاید ڈائریکٹر خالد حسن خان نے امریکا میں فلم کی تعلیم کے دوران قبول کیا تھا۔

'ہوٹل' کی کہانی ایک ایسی عورت پر بنائی گئی ہے جو اپنی نومولود بچی کی زندگی بچانے کے لیے ایک ایسی دنیا میں لڑ رہی ہے جہاں جو دکھائی دے رہا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے۔

فلم کو مکمل طور پر ہندوستان میں مقرر کیا گیا ہے، اس کا موضوع ایک متنازع سماجی مسئلے پر ہے جس سے نمٹنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ہندوستان اور پاکستان دونوں کے ناظرین سے متعلق ہوسکتی ہے۔ ہدایت کار نے فلم میں بار بار سنیما کے ذریعے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان موجود مشابہت دکھائی جس سے دونوں ممالک کے درمیان مخالفت کو کم کیا جاسکے۔

میرا اس فلم کی اسٹار تھیں

'ہوٹل' کی کہانی میرا کے کردار کاشیکا کے گرد گھومتی ہے، وہ فلم کی اسٹار ہیں۔ کاشیکا اپنے شوہر کے ہمراہ کچھ اچھے روز گزارنے کے لیے ہوٹل میں آکر رہتی ہیں جہاں انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہاں کچھ 'آسیب' موجود ہیں اور اس وجہ سے ہی ان کی زندگی پریشانی اور الجھن میں گھر جاتی ہے۔ ان کے ڈاکٹر نے خیال ظاہر کیا کہ اگر دونوں کہ یہاں کبھی بچے کی پیدائش ہوئی تو صورتحال تبدیل ہوجائے گی اور شوہر بھی پہلے کی طرح توجہ نہیں دے گا۔

عام طور پر جب بھی کسی فلم کا ریویو لکھا جاتا ہے تو خیال رکھا جاتا ہے کہ فلم کی کم سے کم کہانی کو بیان کیا جائے۔ لیکن اس معاملے میں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ فلم 'ہوٹل' کا سماجی میسج لوگوں تک ضرور پہنچنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ کیا تو فلم کا پیغام کھو جائے گا۔

میرا کے مطابق فلم کی کہانی کا اصل مقصد تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کے والدین کس طرح اپنی نومولود بیٹی کو بیٹا نہ ہونے پر ختم کردیتے ہیں۔ یعنی یہ فلم ایک ایسی عورت پر ہے جو اپنی بیٹی کی زندگی بچانے کے لیے ایک ایسی دنیا میں لڑ رہی ہے جہاں جیسا سب کچھ نظر آتا ہے ویسا ہے نہیں۔

یہ ایک سماجی مسئلہ ہے جو بحث کے قابل ہے۔

ہوٹل میں غلط کیا ہوا

پوری فلم میں یہ بات صاف ظاہر ہوئی کہ پروڈکشن کو فنانسنگ کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

کچھ سینز کو مکمل طور پر فلمانے کے بجائے چھوڑ دیا گیا جبکہ کچھ سینز میں سیٹ ڈیزئن کی سنگین کمی نظر آئی۔ فلم میں ضرورت نہ ہونے پر بھی تین بڑے گانے شامل کیے گئے جن کا کوئی مقصد نہیں تھا سوائے رقص دکھانے کے۔

یہ گانے اتنے کم بجٹ پر بنائے گئے کہ آپ کو انہیں سن کر وہ مجرے یاد آجائیں گے جنہیں کبھی آپ یوٹیوب پر سن کر ہنستے تھے، اور سب سے بڑی خرابی یہ رہی کہ ان گانوں کو فلم میں صحیح انداز میں شامل کرنے کی کسی کو ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ ایک سین میں میں نے غور کیا کہ ہوٹل کے دروازوں پر لگے نمبرز بھی کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھے تھے جنہیں ٹیپ سے چپکایا گیا تھا۔

میرے خیال میں، فلم ہوٹل میں ایک ایسی فلم تھی جس کو منظر عام پر لایا ہی نہیں گیا جس کی وجہ فنانسنگ کے مسائل اور پروڈکشن میں آنے والی رکاوٹیں، اور فلم سازوں میں واضح نقطہ نظر کی کمی ہے۔ اس بات پر بھی غور کیا جائے مذکورہ بالا تین گانوں کے باوجود اس فلم میں میرا کا کوئی آئٹم سانگ نہیں جس کے بارے میں انہوں نے کافی فخریہ انداز میں فلم کی اسکریننگ کے دوران بتایا تھا۔

'ہوٹل' کی کچھ بہتر باتیں؟

فلم میں کچھ مناظر ایسے ضرور تھے جب میں سنیماٹوگرافی اور مکالموں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، جنہوں نے مجھے ملہولینڈ ڈرائیو یا دی لوسٹ ہائی وے جیسی فلموں کی یاد دلا دی۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ کبھی بھی کسی مقامی فلم نے نہ مجھے اتنا کنفیوژ کیا ہے، اور نہ میری دلچسپی ایسے قائم کی ہے۔ مگر یہ لمحات بہت مختصر تھے، کیونکہ مجموعی طور پر فلم ایک مکمل ہوچکی فلم کے بجائے زیرِ تکمیل فلم محسوس ہو رہی تھی۔

فلم کی اسکریننگ کے بعد میں نے میرا سے ملاقات کی تاکہ ہوٹل کے بارے میں ان کے تاثرات جانوں، اور یہ کہ انہیں ناظرین سے کیا توقعات ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ بھی فلم کی خوبیوں کے بجائے فلم کی خامیوں پر زیادہ توجہ چاہتی تھیں۔

جب میں نے گفتگو کا رخ فلم کی کہانی اور پیغام کی جانب موڑا، تو گفتگو مزید فکرانگیز ثابت ہوئی، اور اس تصور کو تقویت ملی کہ پروڈکشن ٹیم مرکزی خیال کو درست اور واضح انداز میں پیش کرنے میں ناکام رہی۔

میرا کے بارے میں: یہ وہ آرٹسٹ ہیں جنہیں کبھی ہندوستان میں کام کرنے والے اولین اداکاروں میں سے جانا جاتا تھا، اور اب وہ ایسے کرداروں کی تلاش میں ہیں جن سے وہ اپنا امیج بہتر بنا سکیں۔ میری ذاتی رائے میں مجھے لگتا ہے کہ میرا بہت اچھی اداکارہ ثابت ہو سکتی ہیں اگر انہیں کوئی ایسا ہدایتکار مل جائے جو ایسا کردار تخلیق کرے جس میں میرا اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کو پوری طرح سے استعمال کر سکیں۔

ان کے الفاظ سے واضح ہے کہ وہ روایتی لولی وڈ فارمولہ فلمز سے ہٹ کر کچھ کرنا چاہتی ہیں۔ شاید یہ سماجی تفریق ہے جس کی وجہ سے وہ پاکستانی سنیما کے نئے دور میں اپنی شناخت بنانے میں رکاوٹوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ فلمی ستاروں کی نئی نسل میں مغربی طرز زیادہ ہے، جس کی میرا نے نقالی کی اکثر کوشش کی ہے مگر بالآخر سوشل میڈیا پر ان کا مذاق ہی بنا ہے۔

میرا کے ساتھ میری گفتگو بیلے ولڈرز کی فلم سن سیٹ بولیوارڈ جیسی ہی رہی، جس میں ایک عمر رسیدہ فلمی اداکارہ ایک نئی فلمی صنعت میں کام کی تلاش کی جدوجہد کرتی ہے، مگر جس کا ہنر پرانا ہوتا ہے۔ شاید اس موضوع پر ایک اچھی فلم بنائی جا سکتی تھی۔

آخر میں یہ کہ فلم ہوٹل کا پلاٹ جذبات سے کافی عاری محسوس ہوا، مگر یہ ہماری فلمی صنعت کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتی ہے، جس میں ایک ہی طرح کی فلموں کا بار بار بننا، اور خواتین اداکاراؤں کو آفر کیے جانے والے کرداروں میں یکسانیت شامل ہے۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ فلمساز مختلف اصناف کی فلمیں تیار کریں، مگر اس کے لیے میرا کے الفاظ میں ضروری ہے کہ "زیادہ سے زیادہ برانڈز اور اسپانسرز کو چاہیے کہ وہ آزاد پروڈکشنز اور نئے خیالات کو فلم کا روپ دھارنے میں مدد دیں۔"

انگریزی میں پڑھیں

آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔