پاکستان ایجادات میں اتنا پیچھے کیوں؟
افسوس کی بات ہے کہ 2015 میں شایع ہونے والی گلوبل انوویشن انڈیکس کی رپورٹ، جو کہ معیشت اور ترقی پر ایجاداتِ نو کے اثرات کا جائزہ لیتی ہے، میں پاکستان 141 ممالک میں سے 131 ویں نمبر پر ہے۔
وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی نے قومی اسمبلی میں اس رپورٹ سے متعلق پوچھے گئے سوالات پر ملک کی خراب درجہ بندی کی مندرجہ ذیل وجوہات بتائیں:
1: سائنس اور ٹیکنالوجیکل ترقی کے لیے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی کم شرح۔
2: تعلیمی اداروں میں سائنسی تعلیم کا کمزور معیار۔
سائنس و تعلیم کی وزارت صرف پاکستان کی نچلی درجہ بندی پر زور دیتے ہوئے یہ بتانا بھول گئی کہ پاکستان میں 61 ہزار محققین کے ساتھ 10,670 پی ایچ ڈیز، جو کہ کہیں سے بھی ایک چھوٹی تعداد نہیں، کیوں ملک کی ٹیکنالوجیکل ترقی میں اپنا حصہ نہیں ڈال رہے ہیں۔
یہاں تک کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے 2002 سے ہزاروں محققین کو پی ایچ ڈی کے لیے بیرونِ ملک بھیجا جس پر اربوں روپے خرچ کیے گئے۔ انوویشن انڈیکس میں پاکستان کی پچھلے پانچ سالوں کی کہانی میں دلچسپ حقائق کے انکشافات ہوتے ہیں۔
پڑھیے: خوشامد کریں ڈاکٹر بنیں
گلوبل انوویشن انڈیکس میں پاکستان کا درجہ 2011 میں اپنے عروج سے لے کر اب تک مسلسل زوال پذیر ہے، باوجود اس کے کہ اس دوران ہزاروں افراد اپنی پی ایچ ڈیز مکمل کر کے پاکستان واپس آئے ہیں۔
یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں زوال پذیر بنیادی سائنسی تعلیم کی حالت پر رونے کے بجائے ہمیں مسئلے کو کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔
سوئٹزرلینڈ جی آئی آئی کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے جس کے پاس 57 فیصد تحقیق کار بیرون ملک سے تعلق رکھتے ہیں، کیونکہ انہیں کئی طرح کی مراعات دی جاتی ہیں۔ مگر پاکستان میں تحقیق کاروں کو ایسے کوئی بھی خاص پیکجز، الاؤنس یا مراعات مہیا نہیں کی جاتیں۔
ایچ ای سی کی غلط پالیسیاں
ایچ ای سی کی غلط پالیسیاں بھی پاکستان میں ریسرچرز کے درمیان مایوسی کی ایک وجہ ہیں۔ پاکستان کے بیشتر پی ایچ ڈی ریسرچرز ایچ ای سی کے زیرِ اختیار یونیورسٹیوں میں ملازم ہیں۔
ایچ ای سی نے ٹینیور ٹریک سسٹم (ٹی ٹی ایس) کے ساتھ پی ایچ ڈی ریسرچرز کے لیے زیادہ تنخواہوں اور دوسری مراعات کا آغاز کیا، مگر اس نظام میں سنگین خامیاں ہیں اور اس کی پالیسیوں اور تعلیمی ڈھانچے میں نمایاں طور پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیے: یونیورسٹیز کو کیسے پرکھا جائے
ٹینیور ٹریک کو مکمل طور پر تدریس اور تحقیق میں کارکردگی کی بنیاد پر ہونا تھا مگر اس کے برعکس زیادہ تر یونیورسٹیوں میں ٹی ٹی ایس فیکلٹی انتظامی اور غیر تدریسی سرگرمیوں میں مصروف ہے، جس سے اس کا بنیادی مقصد ہی ختم ہوجاتا ہے۔
بھلے ہی ٹی ٹی ایس فیکلٹی کو عام پے اسکیل سے زیادہ تنخواہ ملتی ہے مگر انتظامی سرگرمیوں میں بہت زیادہ شمولیت کی وجہ سے وہ تحقیق میں اپنا بہت کم حصہ ڈالتے ہیں۔
پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد تنخواہ میں تھوڑے سے اضافے کے ساتھ عام پے اسکیل پر ملازمت کرنے والا ہر ریسرچر خود کو مالی فوائد کا اہل بنانے کی غرض سے اپنے پروموشن کی جدوجہد کرتا ہے۔
پروموشن کے لیے ایچ ای سی کے موجودہ معیار میں ریسرچرز پر زیادہ سے زیادہ ریسرچ پیپرز شائع کروانے کے لیے کہا جاتا ہے، جبکہ معیار پر یا تو بہت کم، یا بالکل بھی زور نہیں دیا جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ انجینیئرنگ کے شعبے میں ایک بھی پاکستانی ریسرچ جرنل ایسا نہیں ہے جسے بین الاقوامی سطح پر جانا جاتا ہو، یا جس میں شائع ہونے والی تحقیق نے سائنسی میدان پر زبردست اثر ڈالا ہو۔
زیادہ تر پاکستانی ریسرچ جرنلز کی پالیسیوں اور ان کا جائزے کا طریقہ کار نہایت کمزور اور خامیوں سے بھرپور ہے۔
پروموشن حاصل کرنے اور پی ایچ ڈی ڈگری کے حصول کے لیے جدوجہد کو جائز ٹھہرانے کے لیے ایک ریسرچر کے پاس ایچ ای سی کے معیار کو پورا کرنے کے لیے پاکستانی جریدوں میں اپنی تحقیق کو شایع کروانے کے علاوہ کوئی اور انتخاب نہیں بچتا۔
حتیٰ کہ قابل ریسرچرز بھی اس غیر پیداواری سرگرمی کا حصہ بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں جو سائنسی اہمیت سے عاری ہوتی ہے۔
یہ ریسرچرز کو ان سرگرمیوں سے بھی باز رکھتی ہے جو کہ پیداواری تحقیق کے لیے لازمی ہوتی ہیں، مثلاً اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک ریسرچرز کو متوجہ کرنے کے لیے ریسرچ گروپس قائم کرنا، دوسری سائنسی برادریوں سے مشترکہ طور پر تخلیقی خیالات کا تبادلہ کرنا، سائنسی معلومات اور تحقیق کے فروغ کے لیے سائنسی تقاریب کا اہتمام کرنا۔
جانیے: پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں؟ سوچ لیں
موجودہ حالات میں ایجاد نو اور تخلیق کی فہرست میں پاکستان کی درجہ بندی کو بہتر کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔
پاکستان میں سائنسی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ یونیورسٹیوں اور صنعتوں کے درمیان حائل خلاء ہے۔ دنیا بھر کی زیادہ تر یونیورسٹیوں میں ریسرچ پراجیکٹس کی زیادہ تعداد صنعتی ضروریات سے جنم لیتی ہے، اور اس کی فنڈنگ بھی صنعتیں ہی کرتی ہیں۔
اب جبکہ ایچ ای سی، پاکستان سائنس فاؤنڈیشن اور نیشنل آئی سی ٹی آر اینڈ ڈی فنڈ جیسے ادارے یونیورسٹیوں اور صنعتوں کے درمیان خلاء کو پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ان کی مالی معاونت سے کیے گئے زیادہ تر ریسرچ پراجیکٹس صرف انجینئرنگ پر تھوڑے کام کے علاوہ اور کچھ نہیں، جس میں کسی قسم کا کوئی نیا سائنسی کام شامل نہیں ہوتا۔
اس کی اہم وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
1: صنعتوں کو مناسب معلومات فراہم کرنے میں ناکامی
2: سائنسی آگہی اور جذبے کی عدم موجودگی
3: مالی امداد کرنے والی ایجنسیوں اور/یا یونیورسٹیوں کے ساتھ تھوڑے یا بالکل بھی مشترکہ اقدامات نہ اٹھانا۔
ہمارے بنیادی تعلیمی ڈھانچے کی خستہ حالی بھی بہت دردناک ہے۔ پاکستان میں حکومتی اداروں کو تو چھوڑیے، یہاں تک کہ مہنگے نجی تعلیمی اداروں میں بھی یکساں، منطقی غلطیوں سے پاک اور غور و فکر سے تیار کردہ نصابِ تعلیم، لیبارٹری سہولیات اور استدلالی سوچ کی کمی نظر آتی ہے۔
پڑھیے: کچھ ناکارہ پی ایچ ڈیز کے بارے میں
زیادہ تر یونیورسٹیوں میں داخلوں اور امتحانات کے ناقص نظام اس مسئلے کو مزید بڑھانے کا کام کرتا ہے۔
بنیادی تعلیم کے افسوسناک معیار پر توجہ دیے بغیر محض بیرون ملک پی ایچ ڈی کرنے کے لیے لوگوں کی مالی امداد کرنا خستہ حال بنیاد پر فلک بوس عمارت کھڑی کرنے کے مترادف ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے ہمیں ہمارے بنیادی تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پرائمری اسکولوں کے نصاب تعلیم کا دوبارہ جائزہ لینے اور تدریسی ڈھانچے کی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کو بھی ممکن بنانے کی ضرورت ہے کہ تدریسی ملازمتوں کے لیے اچھی خاصی تنخواہ دی جائے تاکہ قابل امیدوار اس جانب متوجہ ہوں۔
جتنی اہمیت ہم بچوں کو مذہب سکھانے پر دیتے ہیں، اتنی ہی اہمیت انہیں سائنس سکھانے پر بھی دینی چاہیے، کیونکہ صرف یہ ہی ایک وہ طریقہ ہے جس سے ہم ایجادات میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر عمیر علی خان قائدِ عوام یونیورسٹی آف انجینیئرنگ، نوابشاہ کے کمپیوٹر سسٹمز انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔
وہ آسٹریا سے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ ریسرچ، سماجی مسائل اور تنقیدی سوچ ان کے پسندیدہ شعبے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔