منڈی بہاؤالدین: بدامنی میں لینڈ مافیا کا کردار؟
لاہور: ایک مقامی زمیندار نے دعویٰ کیا ہے کہ پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤ الدین کے گاؤں چک نمبر 44 میں بدامنی کے پیچھے زمینوں پر قبضہ کرنے والے ایک مافیا کا ہاتھ ہے۔
زمیندار امان اللہ نے بذریعہ فون ڈان کو بتایا کہ '5 سے 7 افراد کا ایک گروہ گذشتہ ایک صدی سے یہاں رہائش پذیر مسیحی برادری کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کر رہا ہے، جبکہ یہاں رہنے والے مقامی مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان اس سے قبل تک مکمل ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'شر پسندوں' نے سب سے پہلے مسیحی برادری سے کوڑیوں کے دام ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کی کوشش کی اور ناکامی کے بعد اقلیتی گروپ کے خلاف نفرت انگیز مہم کا آغاز کردیا۔
منڈی بہاؤالدین کے گاؤں چک نمبر 44 میں صورتحال اُس وقت کشیدہ ہوئی جب کچھ شرپسندوں نے ایک ماہ قبل یہ افواہیں پھیلانا شروع کیں کہ محکمہ صحت کا ملازم ایک خاکروب توہین اسلام کا مرتکب ہوا ہے۔
اس سے قبل اپریل کے وسط میں منڈی بہاؤالدین کے ایک دیہی ہیلتھ سینٹر میں کام کرنے والے عمران مسیح نامی ایک خاکروب کے حوالے سے اس کے ساتھیوں نے رپورٹ دی تھی کہ عمران کو ایک ایسی یوٹیوب ویڈیو دیکھتے ہوئے پایا گیا جس میں ایک مسیحی رہنما اپنی تقریر میں مسلمانوں پر تنقید کر رہے تھے۔
عمران کے ساتھیوں نے الزام لگایا کہ اس نے اپنے موبائل فون میں گستاخانہ ویڈیوز اَپ لوڈ کی تھیں،اس معاملے کو گاؤں کے امام مولوی عمران کے سامنے بھی اٹھایا گیا، جنھوں نے اپنے خطبوں میں لوگوں کو اکسانا شروع کیا، اس صورتحال نے عمران مسیح کو گاؤں چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
امان اللہ کا مزید کہنا تھا کہ کچھ شرپسند گاؤں کی مقامی مسجد کمیٹی کے رکن بھی تھے، جو اقلیتی کمیونٹی کی زمین پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی رپورٹ ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) راجا بشارت کو دی گئی، جنھوں نے ایک 6 رکنی کمیٹی تشکیل دی، جس میں مسلمانوں اور مسیحی کمیونٹی کے 3، 3 رہنما شامل تھے، تاکہ اس معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈی پی او نے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی اور آرز) بھی تشکیل دیئے جن پر دونوں فریقین نے رضامندی ظاہر کی۔
زمیندار امان اللہ کے مطابق کمیٹی کی تشکیل کے بعد اس کے کچھ اراکین نے اس معاملے پر عوام کو بھڑکانا شروع کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ صورتحال خراب ہونے پر تقریباً 15 خاندانوں نے گاؤں چھوڑ دیا اور نامعلوم مقام پر منتقل ہوگئے، بعدازاں پولیس کی جانب سے سییکیورٹی کی یقین دہانی پر ان میں سے 10 خاندان واپس آگئے۔
امان اللہ نے بتایا کہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے گاوں میں 60 سے 70 پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔
دوسری جانب پنجاب کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) مشتاق سکھیرا نے واقعے کا نوٹس لے کر رپورٹ طلب کرلی۔
ڈان کو دستیاب رپورٹ میں ڈی پی او کا کہنا تھا کہ بوسل دیہی ہیلتھ سینٹر کے سپروائزر، کمپیوٹر آپریٹر محسن علی اور ڈسپینسر بلال احمد نے خاکروب عمران مسیح کے موبائل پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں کچھ گستاخانہ مواد موجود تھا۔
یہ واقعہ جمعے کی نماز کے دوران چک نمبر 44 کے عمائدین کے علم میں لایا گیا، جنھوں نے کہا کہ اس معاملے کی رپورٹ پولیس یا مسلم علماء کو دی جانی چاہیئے۔
اب جبکہ وہ اس معاملے پر بات چیت کر ہی رہے تھے کہ ایک علاقہ رہائشی اشرف، جس نے عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا، ان تک پہنچا اور کہاکہ اس کے پاس بھی کچھ ویڈیوز ہیں اور آپ لوگ مسیحیوں کے خلاف اکسانے کے لیے اس معاملے کو کیوں ہوا دے رہے ہیں۔
علاقے کے بڑوں نے اشرف کو مسجد سے جانے کا کہا جس کے بعد اس نے مسیحی کمیونٹی سے رابطہ کیا اور پروپیگنڈا شروع کردیا کہ مسلمان اس معاملے پر اکٹھا ہو کر ان پر حملہ کرنے والے ہیں۔
پولیس نے اشرف کو گرفتار کرلیا جس نے اپنی غلطی پر معافی مانگی۔
ڈی پی او راجا بشارت نے ڈان کو بتایا کہ علاقے کی صورتحال کنٹرول میں ہے اور کچھ لوگ سوشل میڈیا پر اس معاملے کو لے کر عوامی جذبات بھڑکانے میں ملوث تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ امن کمیٹی نے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ کوئی بھی قانون کو اپنے ہاتھوں میں نہیں لے گا۔
لینڈ مافیا کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈی پی او کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ بے بنیاد الزمات لگانے میں ملوث ہیں۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔