لائف اسٹائل

کامیاب ناولوں پر بننے والی بہترین فلمیں

اکثر ڈائریکٹر کسی اچھی کہانی کے لیے مقبول ناولوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
|

کامیاب ناولوں پر بننے والی بہترین فلمیں

فیصل ظفر اور عاطف راجا



فلموں کی بات ہو تو ان کی مقبولیت میں جس چیز کا کردار بنیادی ہوتا ہے وہ اس کی بہترین کہانی یا پلاٹ ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اکثر ڈائریکٹر کسی اچھی کہانی کے لیے مقبول ناولوں کا انتخاب کرتے ہیں اور اگر وہ کتاب لوگوں میں مقبول ہو تو اس کے ہٹ ہونے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔

مگر نالوں پر بننے والی سب سے بہترین فلمیں کونسی ہیں ؟ اب اس فہرست کا تعین تو ہم نہیں کرسکتے اور نہ ہی سب کے نام دیئے جاسکتے ہیں مگر درج ذیل کچھ ایسی بہترین فلمیں ضرور دینے کی کوشش کی گئی ہے جو ناولوں پر مبنی ہیں اور کافی زیادہ پسند بھی کی گئیں۔

آج کل دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کروڑوں افراد نئے نوول کورونا وائرس کی وبا کے باعث گھروں تک محدود ہیں، اس فرصت میں آپ ان فلموں کو دیکھ کر بھی وقت گزاری کرسکتے ہیں۔

دی لارڈ آف دی رنگز سیریز

ڈائریکٹر پیٹر جیکسن کی یہ تین حصوں پر مشتمل فلم سیریز جے آر آر ٹالکن کے ناول دی لارڈ آف دی رنگز پر بنائی گئی جسے فلمی دنیا کا ایک بہت بڑا اور خطرناک منصوبہ سمجھا گیا تھا جس پر کروڑوں ڈالرز خرچ کیا گیا، یہ تینوں فلمیں 8 سال میں مکمل ہوئیں، ریلیز ہونے کے بعد اس کی کامیابی نے تاریخ رقم کی اور یہ سب سے زیادہ کمانے والی فلم سیریز میں سے ایک ہے۔ اس نے 17 آسکرز ایوارڈز بھی اپنے نام کیے جن میں سے اس سیریز کی آخری فلم دی ریٹرن آف دی کنگ نے 11 جیتے اور اس طرح بن حر اور ٹائیٹنک کے ساتھ سب سے زیادہ آسکر ایوارڈز جیتنے والی فلم بنی۔

ٹو کل اے موکنگ برڈ

1962 کی یہ فلم اسی نام سے شائع ہونے والے ایک ناول پر مبنی تھی جسے ہارپر لی نے تحریر کیا تھا، اس ناول اور فلم کی کہانی جنوبی امریکا میں مقیم چند بچوں کے گرد گھومتی ہے جن کے بچپن کی معصوممیت حالات زمانہ کی نظر ہو جاتی ہے، ان بچوں کے والد جو ایک وکیل ہیں ریپ کے ایک کیس کی پیروی کر تے ہیں جس میں ایک سیاہ فام معصوم شخص پر ایک سفید فام نوجوان لڑکی کے ریپ کا الزام ہوتا ہے۔ یہ بچے چھپ کر اس کیس کی پیروی دیکھتے ہیں اور جوں جوں کیس آگے بڑھتا ہے ان کے والد اور خود ان کے لیے مسائل سنگین ہوتے چلے جاتے ہیں، ہارٹن فوٹ کے بہترین اسکرین پلے اور رابرٹ ملی گن کی ہدایتکاری نے اس فلم کو کامیاب بنا نے میں اہم کردار ادا کیا۔

گاڈ فادر سیریز

دی گاڈ فادر ماریو پیوزو کے اسی نام کے ناول کی عکسبندی ہے جسے 1972 میں ڈائریکٹر فرانسس فورڈ کوپپولا اور مارلن برانڈو، ال پچینو اور جیز سان جیسے اداکاروں نے کلاسیک فلموں میں شامل کروا دیا، اطالوی مافیا کی امریکا میں سرگرمیوں پر مبنی یہ فلم اب بھی دیکھنے والوں کو مسحور کردیتی ہے، جسے ہر دور کی سب سے بہترین فلم قرار دیا گیا ہے جس نے تین آسکرز اپنے نام کیے جبکہ اسے مجموعی طور پر گیارہ شعبوں کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ اس کا دوسرا حصہ بھی کلاسیک قرار دیا جاتا ہے، تاہم تیسرا حصہ اتنا زیادہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔

لٹل ویمن

یہ اسی نام کے ایک کلاسیک ناول پر مبنی فلم ہے جو لوسیا مے ایلکاٹ نے تحریر کیا تھا اور 1868 میں شائع ہوا تھا۔ ڈائریکٹر گریٹا گریوگ نے فلم کی ہدایات دیں جو 4 بہنوں کے گرد گھومتی ہے اور اس میں اصل کہانی کو ذرا مختلف انداز سے بیان کیا گیا۔ یہ امریکی خانہ جنگی کے بعد کے برسوں پر مشتمل ہے جس میں جو مرچ کا کردار مرکزی تھا جو ایک مصنف کے طور پر زندگی گزار رہی ہوتی ہے۔

شنڈلرز لسٹ

یہ فلم تھامس کنیلے کے نام شنڈلرز آرک پر مبنی ہے جسے اسٹیون اسپیلبرگ نے ڈائریکٹ کیا، اس میں آسکر شنڈلر نامی ایک ایسے شخص کی کہانی بیان کی گئی ہے جو ہٹلر کے دور میں ایک ہزار سے زائد یہودی پناہ گزینوں کی زندگیاں اپنے کارخانوں میں پناہ دے کر بچاتا ہے ۔ اس فلم نے 7 آسکر ایوارڈز اپنے نام کیے جبکہ اسے ہر دور کی سو بہترین امریکی فلموں کی فہرست میں 8 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔

ریگنگ بل

باکسنگ کی دنیا پر بننے والی یہ پراثر فلم جیک لاموٹا کی سوانح ریگنگ بل : مائی اسٹوری پر مبنی ہے جس کی ہدایات مارٹن اسکورسیز نے دیں۔ابرٹ ڈی نیرو کی شاندار اداکاری سے سجی باکسنگ رنگ کے گرد گھومتی اس فلم میں خود کو تباہی کے راستے پر چلاتے باکسر کے زندگی کے سفر کو دکھایا گیا ہے۔ تشدد اور غصہ اسے رنگ میں تو اوپر لے جاتا ہے مگر باہر اس کی زندگی تباہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس فلم کی ریلیز کے موقع پر مناسب تشہیر نہیں کی گئی جس کے باعث باکس آفس پر اسے بہت زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی تاہم اب اسے ہر دور کی بہترین فلموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

ہڈن فگرز

ہیڈن فگر ناسا سے تعلق رکھنے والی خواتین سائنسدانوں کی حقیقی کہانی پر مشتمل فلم ہے جو کہ مارگوٹ لی شیٹرلے کی کتاب پر مبنی ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ سیاہ فام خواتین کی ذہانت کے حوالے سے کیسے تعصبانہ رویے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ تین سیاہ فام خواتین 'ہیومن کمپیوٹرز' کی جدوجہد کی داستان ہے، ان تین ریاضی دانوں نے اس دور میں سیاہ فام افراد کے حقوق اورامریکی معاشرے میں رائج نسلی و صنفی تعصب کے خلاف آواز بلند کی جب ناسا جیسے معیاری تحقیقی ادارے میں بھی جگہ بنانے کے لییے سیاہ فام افراد خصوصا خواتین کو بے پناہ مصائب و مشکلات کا سامنا تھا۔

دی شائننگ

اسٹیفن کنگ کے ہارر ناول دی شائننگ پر مبنی اس فلم کی ہدایات ڈائنے جونسن نے دیں۔ ایسی چہزوں سے لوگوں کے اندر خوف کی لہر دوڑانا مشکل ہے جو عام یا دیکھی بھالی ہو۔ اس فلم کا مرکزی کردار چیخیں نکلوانے میں تو کامیاب نہیں ہوتا مگر اس نے پوری فلم کو ایسے چلایا ہے کہ خوف کی لہر موجود رہتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ سب گھر کے اندر ہی ہورہا ہے، ان سب نے اسے کلاسیک کا درجہ دلا دیا ہے۔

دی سائیلنس آف دی لیمبس

کون تصور کرسکتا ہے کہ کوئی شخص اسے کھا جائے ؟ فلم میں دکھائی جانے والے تمام تر وحشیانہ پن سے ہٹ کر بھی اس میں بہت کچھ ایسا چھپا ہوا ہے جو اسے انتہائی خوفناک ہونے کے ساتھ ساتھ بیک وقت انسانی جذبات سے بھرپور بھی ثابت کرتا ہے۔ یہ فلم اسی نام سے شائع ہونے والے تھامس ہیرس کے ناول پر مبنی تھی، جس کا مرکزی کردار ہینی بال ہیکٹر اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں اپنی تمام تر وحشت کے ساتھ زندہ ہے۔

ڈاکٹر ژواگو

ڈاکٹر ذواگو ایک روسی فزیشن اور شاعر کی زندگی پر بنائی جانے والی کلاسیک فلم ہے جو پہلی جنگ عظیم اور انقلاب اکتوبر کے عہد کو ذہن میں رکھ کر تیار کی گئی ہے، فلم کا مرکزی کردار ایک ایسی خاتون کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے جو پہلے ہی شادی شدہ ہوتی ہے۔ یہ فلم تین گھنٹے طویل ہے اور درحقیقت روس کی جگہ فن لینڈ، اسپین اور کینیڈا میں عکسبند ہوئی ہے۔اس کی کہانی بورس پیسٹرنک کے مقبول ترین ناول پر مبنی ہے۔

ہیری پوٹر سیریز

جے کے رولنگ کے ناولوں پر مشتمل ایک بچے اور جادوگر کی اس داستان کا مرکزی خیال بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ لگ بھگ ہر ایک کو ہی بخوبی یاد ہوگا اور اس کا بھی اعتراف سب کریں گے کہ ان 8 فلموں کو بار بار دیکھ کر بھی دل نہیں بھرتا اور جب بھی لگے بیشتر افراد ان کو دیکھ ہی لیتے ہیں۔

گون ود دی ونڈ

1939 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو سب سے زیادہ کمانے کا اعزاز بھی حاصل ہے اگر اس دور کی آمدنی کو موجودہ عہد میں ڈالرز کی شرح سے دیکھا جائے تو، امریکی خانہ جنگی کے دوران ایک جوڑے کی اس رومانوی فلم کو ہر دور کی بہترین فلموں میں سے ایک مانا جاتا ہے جس کی ہدایات وکٹر فلیمنگ نے دیں جبکہ اس کے اسٹارز میں کلارک گیبل اور دیگر شامل تھے۔ یہ فلم بھی مارگریٹ مچل کے پلٹرز ایوارڈ یافتہ ناول گون ود دی ونڈ پر مبنی تھی۔

نو کنٹری فار اولڈ مین

کارمک میکارتھی کے اسی نام کے ناول پر مبنی فلم اچھائی، برائی پر گھومتی ہے، اس فلم کا اسکرپٹ جیول اور ایتھن کون نے تحریر کرنے کے ساتھ اس کی ہدایات بھی دیں، جس میں ٹیکساس میں کھیلے جانے والے چوہے بلی کے کھیل کو پیش کیا گیا ہے۔ اس فلم میں ٹومی لی جونز، جوئیر بارڈیم اور جوش برولن نے مرکزی کردار ادا کیے۔

دی گرین میل

یہ فنٹاسی کرائم ڈراما فلم اسٹیفن کنگ کے اسی نام سے شائع ہونے والے ناول پر بنی جس کی ہدایات فرینک دارابونٹ نے دیں۔ یہ فلم سزائے موت پر عملدرآمد کرانے والے محافظوں پر مبنی ہے جو ایک قاتل کے اندر ایک خصوصی گفٹ دیکھ کر بدل جاتاے ہیں، یہ انتہائی پراثر کہانی ہے جو دیکھنے والوں کے کی آنکھوں کو نم کردیتی ہے۔

جراسک پارک

ہوسکتا ہے بیشتر افراد کو علم نہ ہو مگر 1993 میں ریلیز ہونے والی ڈائریکٹر اسٹیون اسپیلبرگ کی یہ مشہور زمانہ فلم درحقیقت اسی نام سے شائع ہونے والے ایک ناول پر مبنی تھی جسے مائیکل کرچیٹن نے تحریر کیا تھا۔ ڈائنو سارز اور انسانوں کے درمیان ہونے والی جدوجہد پر مبنی اس فلم کی کہانی بیان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ بیشتر افراد نے ضرور دیکھی ہوئی ہوگی۔

فائٹ کلب

چک پلاہونیک کے ناول پر مبنی اس فلم میں ایک عام شخص کی ملاقات صابن بیچنے والے سیلزمین سے ہوتی ہے اور ان کے درمیان ایک پیچیدہ تعلق اس وقت قائم ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے سے لڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ ایک ناول پر بننے والی بہترین فلم ہے جس کو دیکھتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا، بظاہر ایک عام سی کہانی تجسس سے کتنی بھرپور ہے، دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔

سائیکو

تھرلر فلموں کو پسند کرنے والا کون فرد ہوگا جس نے اس فلم کو نہ دیکھا ہو۔ الفریڈ ہچکاک کی ڈائریکشن میں بننے والی اس فلم کو سب سے بہترین تھرلر فلم بھی کہا جاتا ہے جو ایک مسٹری کے اوپر گھومتی ہے جس کے کچھ مناظر کو اب تک فراموش نہیں کیا جاسکا ہے ، یہ فلم اسی نام سے شائع ہونے والے رابرٹ بلوک کے ناول پر مبنی تھی۔

دی سوشل نیٹ ورک

دی ایکسیڈنٹل بلین ائیر نام کے ناول پر مبنی اس فلم میں فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کی زندگی کو بیان کیا گیا ہے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان کی زندگی کتنی دلچسپ ہے جو ہارورٖڈ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کیے بغیر نکلے اور اب دنیا کے طاقتور ترین انسانوں میں سے ایک ہیں۔

جاز

ڈائریکٹر اسٹیون اسپیلبرگ کی ایک اور فلم جو پیٹر بینسلے کے ناول جاز پر مشتمل تھی، جو گریٹ وائٹ شارک کے انسانوں پر حملوں پر مشتمل تھرلر فلم تھی جس نے اپنے دور میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی اور انسانوں کے اندر صحیح معنوں میں شارک مچھلی کا خوف بٹھا دیا۔ اس فلم کو بھی اب عظیم ترین فلموں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔

ڈائی ہارڈ

بروس ولز کو عروج پر پہنچانے والی اس فلم کی تیاری کے لیے راڈرک تھارپ کے 1979 کے ناول نتھنگ لاسٹس فور ایور کا انتخاب کیا گیا، اس فلم کی ہدایات جون میکٹائرینن نے دیں۔ اگر آپ نے فلم نہیں دیکھی تو بس جان لیں کہ اس میں ایک پولیس آفیسر انتہائی منظم مجرموں کے ایک گروپ کے مدمقابل آکر ان کا شیرازہ بکھیر دیتا ہے۔

روم

اسی نام کے ناول پر مبنی یہ فلم ایک ماں اور اس بیٹے کے گرد گھومتی ہے جو 7 سال تک ایک محدود جگہ پر قید رہتے ہیں، پھر انہیں آزادی ملتی ہے اور بچے کو پہلی بار باہری دنیا میں جانے کی آزادی ملتی ہے۔

دی کرانیکل آف نارینہ سیریز

یہ فنٹاسی فلم سیریز سی ایس لیوئس کے تحریر کردہ 7 ناولوں پر مشتمل ہے جن میں سے اب تک تین کو عکسبند کیا جاچکا ہے۔ نارینہ کی دنیا کے مہم جو بچوں کے گرد گھومنے والی اس فلم سیریز کو کافی پسند کیا گیا ہے اور اب تک یہ دنیا بھر سے ڈیڑھ ارب ڈالرز کما چکی ہے، جبکہ اس کی چوتھی فلم پر بھی کام جاری ہے۔

گڈ فیلاز

ڈائریکٹر مارٹن اسکورسیز نے اس فلم کے لیے نکولس پلیگی کے ناول وائز گائے کا انتخاب کیا، جس میں 1955 سے 1980 کے دوران ایک شخص اور اس کے دوستوں کے عروج و زوال کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔ معمولی جرائم پیشہ گروپ سے زیرزمین دنیا کے راج تک رابرٹ ڈی نیرو کی یہ فلم کافی متاثر کن ہے۔

ایل اے کانفیڈنشنل

جیمز ایلوری کے ناول پر مبنی اس فلم میں لاس اینجلس شہر کے پولیس اہلکاروں کی کہانی بیان کی گئی ہے جس میں تجسس، مسٹری اور سپسنس عروج پر ہے جو مختلف قتل کے واقعات کی تحقیقات کرتے ہوئے غیرمتوقع موڑ پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔

دی ایگزارسٹ

ہارر فلموں کے شوقین افراد نے اس کو ضرور دیکھ رکھا ہوگا جسے ولیم فرائیڈکن نے ڈائریکٹ کیا اور یہ اس کی کہانی اسی نام سے شائع ہونے والے ناول پر مبنی تھی جس میں ایک لڑکی پر کسی آسیب کے قبضے کے بعد اس کی ماں کی جانب سے دو افراد کی مدد سے اسے بچانے کی کوششوں کا احوال بیان کیا گیا ہے۔

2001 : اے اسپیس اوڈیسے

یہ سائنس فکشن ماسٹر پیس ہر دور کی بہترین فلموں میں سے ایک مانی جاتی ہے اس کے حیرت انگیز ساﺅنڈ ٹریکس، بولڈ ویڑول اور بہترین اداکاری، غرض کہ ہر شعبے میں یہ بہترین تھی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اسے 1968 میں ریلیز کیا گیا تھا، مگر زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ 1948 کے ایک ناول دی سینٹینل پر مبنی تھی جسے آرتھر سی کلارک نے تحریر کیا۔

ون فلیو اوور دی ککوز نیسٹ

کین کیسی کا یہ ناول بہت مقبول ہوا تھا مگر فلم نے اس کی کامیابی کو گہنا دیا، 1975 کی یہ فلم ایک نفسیاتی مرکز کے حوالے سے ہے جہاں ایک باغی مریض اپنے ساتھی مریضوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرنے والی ہیڈ نرس کا سامنا کرتا ہے، اس میں جذبات کو کچھ اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ کسی کے لیے بھی اپنے آنسوﺅں کو روکنا آسان نہیں ہوتا۔

کیچ می اف یو کین

فرینک اباگنالی کے اسی نام کے ناول پر مبنی لیونارڈو ڈی کیپریو کی اس فلم میں ایک انیس سالہ نوجوان کی حیران کن مگر سچی کہانی کو پیش کیا گیا ہے جو خود کو ایک وکیل، ڈاکٹر اور پائلٹ کے روپ میں پیش کرکے لاکھوں ڈالرز کی ہیراپھیری کرتا ہے۔ اس فلم کا مرکزی کردار ہر وقت ہی کسی نہ کسی نئی جگہ کا رخ کررہا ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اسے تین مختلف جگہوں کیلیفورنیا، نیویارک اور کیوبک میں فلمایا گیا۔

شٹر آئی لینڈ

ڈائریکٹر مارٹین اسکورسیز کی یہ سائیکلوجیکل تھرلر فلم لیونارڈو ڈی کیپریو کی بہترین فلموں میں سے ایک ہے جس کی کہانی کے لیے 2003 میں شائع ہونے والے ڈینیس لیہانے کے اسی نام کے ناول کا انتخاب کیا گیا۔ اس فلم میں لیونارڈو نے ایک یو ایس مارشل کا کردار ادا کیا تھا جو شٹر آئی لینڈ کے سائیکاٹرک ادارے کی تفتیش کررہا ہوتا ہے۔

اے بیوٹی فل مائنڈ

معروف ریاضی دان جان فوربس نیش جونیئر کی حقیقی کہانی پر مشتمل اس فلم کو رون ہوورڈ نے ڈائریکٹ کیا جبکہ رسل کرو نے مرکزی کردار انتہائی خوبصورتی سے ادا کیا جو انتہائی تنک مزاج پروفیسر کا تھا۔ پھر وہ دماغٰ مرض شیز و فرنیا کا شکار ہوجاتا ہے اور دہائیوں تک اس کا مقابلہ کرکے کسی نہ کسی طرح اپنی ذہنی حالت پر کنٹرول حاصل کرتا ہے اور بتدریج نوبل انعام جیتنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس کی کہانی سلویا نسار کے اسی نام کے ناول پر مبنی تھی۔

کریزی رچ ایشینز

یہ فلم کیون کاوان کے طنزیہ ناول پر مبنی تھی اور اس پر بننے والی فلم بھی غیرمتوقع طور پر ہٹ ثابت ہوئی تھی، جس میں سنگاپور کے اعلیٰ طبقے کی پیچیدہ توقعات اور دیگر شعبوں کو سنیما کی اسکرین پر دکھایا گیا تھا۔

فورسٹ گمپ

1994 میں رابرٹ زیمییکس کی ڈائریکشن میں بننے والی یہ فلم ایک رومانوی فلم ہے جس کا مرکزی کردار ذہین تو نہیں ہوتا مگر وہ حادثاتی طور پر متعدد تاریخی لمحات کو جنم دینے کا باعث بن جاتا ہے اور یہی دیکھنے والوں کو بھی بھا گیا۔ ٹام ہینکس، کرٹ کرسل اور سیلی فیلڈ کی اس فلم کے لیے ونسٹن گروم کے ناول فورسٹ گمپ کا انتخاب کیا گیا۔

دی شاشنک ریڈیمپشن

ٹم رابسن اور مورگن فری مین کی یہ دلچسپ و کلاسیک فلم جس میں کئی برسوں سے قید دو قیدی اپنی جیل کو ایسے بدل دیتے ہیں کہ وہ غیرمعمولی اور دنیا سے باہر کی جیل محسوس ہونے لگتی ہے۔ 1994 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو فرینک ڈارابونٹ نے ڈائریکٹ کیا، یہ ایسی فلم ہے جسے جب بھی دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ پہلی بار دیکھ رہے ہیں، جس کی ایک وجہ اس کی بہترین کہانی تھی جو اسٹیفن کنگ کے ناول ریٹا ہیورتھ اینڈ شاشنک ریڈیمپشن پر مبنی ہے، جو ایک بینکر کی کہانی ہے اپنی بیوی اور اس کے محبوب کے قتل کے الزام میں جیل کاٹ رہا ہوتا ہے جبکہ یہ جرم اس نے کیا بھی نہیں ہوتا۔ وہاں اس کی دوستی ایک قیدی ایلیز بوئید ریڈ ریڈنگ سے ہوتی ہے جو اسے جیل میں سامنے آنے والی مشکلات سے بچاتا ہے۔

دی گرل ود ڈریگن ٹیٹو

یہ فلم سوئیڈن کے ایک مصنف اسٹیگ لارسن کے ناول پر مبنی تھی، اس فلم کی کہانی ایک صحافی کے گرد گھومتی ہے جو ایک ہیکر کے ساتھ ایسی خاتون کی تلاش کرتا ہے جو چالیس سال سے لاپتہ ہے، اس تلاش کے دوران انہیں مسلسل معموں کا سامنا ہوتا ہے اور وہ مشکل حالات میں پھنس جاتے ہیں۔ ڈائریکٹر ڈیوڈ فنیچر کی اس فلم میں ڈینئیل گریک نے مرکزی کردار ادا کیا۔

کبھی ہمت نہیں ہارنا چاہتے تو یہ فلمیں دیکھیں

ناقدین کی نظر میں ہر دور کی 15 بہترین فلمیں

شروع سے آخر تک سنسنی اور تجسس میں مبتلا رکھنے والی بہترین فلمیں