منٹو کے ہر اچھے برے دور کی ساتھی، صفیہ
بہت کم لوگ جانتے ہیں اور بہت ہی تھوڑا لکھا گیا ہے اس خاتون کے بارے میں جس نے ہمیشہ اپنے ساتھی کا ساتھ دیا جسے ہم سب آج تک یاد رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ صفیہ دین اگر سعادت حسن منٹو سے شادی نہ کرتیں اور صفیہ منٹو نہ بنتی تو شاید اتنی مشہور نہ ہوتی۔
لیکن، یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ منٹو بھی اتنے مقبول نہ ہوتے اگر صفیہ ہر اچھے برے وقت میں شوہر کے ساتھ کھڑی نہ ہوتیں، جہاں اچھے وقت بہت کم اور برے زیادہ ہی تھے۔
منٹو اور صفیہ دونوں ہی 11 مئی کو پیدا ہوئے، (شوہر 1912 کو جبکہ بیوی 1916 میں) سیاہ فریم کے چشمے، دونوں کا کشمیر سے تعلق اور دونوں ہی کے ناموں کا پہلا لفظ ایس سے شروع ہوتا تھا، لیکن شاید یہ مماثلت وہیں ختم ہوگئیں۔
منٹو کو ہر چیز بہترین پسند تھی ، کوئی بھی چیز ہو انہیں بہترین ہی چاہئے ہوتی جبکہ صفیہ نہایت سادہ تھیں، مشکلات کے دور میں زیادہ کی طلب نہ تھی۔ منٹو بے باک تھے اور کوئی موقع ہاتھ جانے نہیں دیتے جبکہ صفیہ نہایت شرمیلی تھیں۔
گھر والوں کی مرضی سے 1936 میں شادی کرنے کے بعد منٹو نے 'میری شادی' کے نام سے ایک مضمون لکھا، جس کے بعد جلد ہی دونوں کو آپس میں لگاؤ ہوگیا۔
دہلی کے آل انڈیا ریڈیو میں کام کرنے کے بعد منٹو بمبئی واپسی آئے جہاں ان دونوں کے بہترین دن گزرے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں انہوں نے اپنا پہلے بیٹے عارف کو کھودیا، اس صدمے نے انہیں توڑ دیا تھا لیکن ایک دوسرے سے مزید قریب بھی کردیا۔ اس کے بعد ان کی تین بیٹیاں ہوئیں۔
منٹو نے ایک بار لکھا تھا، 'ہوسکتا ہے میں فحش کہانیاں لکھتا ہوں، ایک جوکر ہوں، لیکن میں ایک شوہر اور والد بھی ہوں'۔