'فہیم کمانڈو سے دوستی نے صولت کی زندگی بدل ڈالی'
کراچی: شام ہوتے ہی کراچی کے مضافات میں واقع ایک 2 منزلہ مکان کے باہر نوجوان لڑکے کرکٹ کھیلنے کے لیے جمع ہوجاتے ہیں۔
لیکن سڑک کے پار اپنے چھپڑے میں بیٹھا ایک شخص انھیں خاموشی سے دیکھتا رہتا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس کھیل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
یہ وہی جگہ ہے جہاں ایک سال قبل ایک نوجوان بیوہ نے اپنے 11 ماہ کے یتیم بیٹے کے ساتھ ایمبولینس میں موجود اپنے شوہر کی میت کو آخری بار الوداع کہا تھا، جسے بلوچستان کی مچھ جیل سے لایا گیا تھا۔
مزید پڑھیں:شاہد حامد کے قاتل صولت مرزا کو پھانسی
ایک سال گزر گیا، اب اس بچے نے چلنا شروع کردیا ہے، اس کی والدہ کے آنسو بھی خشک ہوچکے ہیں کیونکہ ان کی تمام تر توجہ اپنے بیٹے کی پرورش پر مرکوز ہوچکی ہے۔
وہ اسے اپنے مرحوم شوہر صولت مرزا کے جیسا دیکھنا چاہتی ہیں، بالکل ویسا ہی جب وہ غلط راستے پر چلنے سے پہلے تھے— ایک خوش باش، پڑھائی میں تیز اورمحنتی نوجوان جسے کھیلوں سے محبت تھی۔
یہاں وہ اپنی بائیک میں پیٹرول ڈلوانے کے لیے ہم سے 100، 200 روپے ادھار لے رہا ہوتا تھا اور وہاں اس کے نام پر بھتہ طلب کیا جارہا ہوتا تھا
—صولت کے بھائی فرحت
صولت مرزا کے ایک بڑے بھائی نصرت علی خان کے مطابق، 'یہ 1990 کا اوائل تھا۔ میں مختلف تقریبات میں ویڈیوز بنانے کا کام کرتا تھا اور صولت میری مدد کیا کرتا تھا، اُس وقت شہر میں بد امنی اور لاقانونیت اپنے عروج پر تھی، پختون اور اردو بولنے والے ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے۔ ایسے میں کچھ ہمارے جیسے لوگ بھی تھے جو ہمیشہ بغیر کسی قصور کے ان کی زَد میں آجاتے تھے اور اپنی پھرتی دکھانے کے لیے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں ان بے گناہ لوگوں کو پکڑ لیتی تھیں۔ میرا بھائی نہایت حساس انسان تھا اور وہ تلخ تجربات جنھیں ہم بھولنے کو ترجیح دیتے تھے وہ اسے یاد رہتے تھے'۔
انھوں نے مزید بتایا، 'ہم نارتھ ناظم آباد کے بلاک 'ایس' میں رہائش پذیر تھے۔ ہم نے سوچا کہ وہ محلے کے دیگر لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے گیا ہے، وہ ایک بہت اچھا فاسٹ باؤلر تھا، لیکن اس بارے میں اب ہم جتنا سوچیں، ہمیں اس بات کا اتنا ہی پختہ یقین ہونے لگتا ہے کہ یہ اس کی فہیم سے دوستی تھی، جس نے اس کی زندگی کو بالکل بدل کر رکھ دیا اور دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ 'فہیم کمانڈو' کے نام سے پہچانا جانے والا یہ نوجوان بھی اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ فہیم کے ساتھ شامل ہوکر وہ صرف یہ چاہتا تھا کہ وہ ایک ایسا شخص بن جائے جس کے اہلخانہ کو کبھی کوئی کچھ نہ کہہ سکے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ایک مرتبہ جب آپ بری صحبت میں پڑ جائیں تو پھر آپ ہر طرح کے کاموں میں ملوث ہوتے جاتے ہیں'۔
صولت کے ایک اور بڑے بھائی فرحت علی خان اس بات پر افسردہ ہیں کہ کس طرح ان کے بھائی کا نام اب بھی سیاستدانوں کی جانب سے ذاتی فوائد کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔