نقطہ نظر

منی مارگ: کنٹرول لائن کا سحر انگیز قصبہ

منی مارگ تک پہنچنا دشوار ہے اور ساتھ ہی خصوصی اجازت بھی درکار ہوتی ہے، لیکن کم سیاحوں کی وجہ سے یہ جگہیں صاف ستھری ہیں۔

منی مارگ: کنٹرول لائن کا سحر انگیز قصبہ

عثمان احتشام انور

یہ چار حصوں پر مشتمل سفرنامے کا دوسرا حصہ ہے۔ پہلا حصہ یہاں پڑھیے۔


ایک گھنٹے کی تھکا دینے والے ہائیکنگ کے بعد میں اچانک ٹھہر گیا۔ میں نے اب تک صرف ڈیڑھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔

سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا، اور دیوسائی کے درختوں سے عاری میدان میں کوئی سایہ دار جگہ نہیں تھی، ایسے میں میرے لیے پیٹھ پر وزن کو برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ کسی آوارہ بادل کے ساتھ ساتھ چلنا تو ناممکن تھا جو کھلے نیلے آسمان سے سایہ فراہم کرتا اور جلد ہی اپنا سایہ اپنے ساتھ لے جاتا۔

میں جس رفتار سے چل رہا تھا، اس سے مجھے یہ یقین تھا کہ چلم کی جانب اترائی شروع ہونے سے قبل مجھے دو گھنٹے مزید اوپر کی طرف پیدل چلنا تھا۔

دیوسائی سے نکلتے ہوئے۔— فوٹو عثمان احتشام انور۔

میں نے کچھ دن پہلے ہی منی مارگ کے بارے میں سنا تھا کہ یہ ہندوستانی سرحد کے قریب واقع ایک دلکش قصبہ ہے، میں اس دن وہاں پہنچنے کے لیے کسی سواری کی امید کر رہا تھا۔

حالانکہ فوج نے منی مارگ جانے والا راستہ پختہ کیا ہے، مگر پھر بھی سڑک پر کافی حصے ایسے ہیں جہاں ایک غلط موڑ سے سینکڑوں میٹرز کی خطرناک بلندی سے گرنے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ رات کے وقت سفر کرنا تو تقریباً ناممکن ہے۔

پیدل چلنے کے علاوہ میرے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا۔ ایک اور گھنٹہ دھول بھرے راستے پر آہستہ اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کے بعد بالآخر پکی سڑک شروع ہوئی۔ راستے میں کچھ ویران لکڑی کے مکان اور ان سے متصل میدانوں میں کچھ بچے کھیلتے ہوئے نظر آئے۔

وہ مجھے دیکھ کر متجسس تھے کہ آخر کون اکیلا اجنبی اپنی پیٹھ پر ایک بڑا تھیلا لادے آیا ہے، وہ مجھ سے پوچھ گچھ کرنے میرے پاس آئے۔

وہ تمام چلم کے قریبی گاؤں کے باسی تھے جو اسی سمت واقع تھا جس سمت میں میں گامزن تھا۔ لفٹ کے کوئی آثار دیکھنے میں نہیں آ رہے تھے اس لیے تھوڑی دیر کے وقفے کے بعد میں دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا اور سفر جاری رکھا۔ تب تک میرے تنہا سفر کی راہ میں چار نوجوان اور جوشیلے سیاح ساتھیوں کا اضافہ ہو چکا تھا۔

اصغر علی کے ساتھ اس کی موٹرسائیکل پر۔ — فوٹو عثمان احتشام انور۔

اصغر علی، جو کہ اسکردو میں ایک لائبریریئن ہیں، نے اپنے آبائی شہر استور میں اپنے گھر والوں سے ملنے جانا تھا۔ قراقرم ہائی وے کے طویل مگر پختہ راستے سے جانے کے بجائے انہوں نے اپنی ہونڈا 125 پر دیوسائی کے میدانوں کے بیچ سے گذرتے ہوئے ہچکولے دار مگر دلکش سفر کا فیصلہ کیا۔

دور سے موٹر سائیکل کی آواز سننے پر میرے ساتھیوں نے شور و غل مچانا شروع کردیا اور میل بھر کے فاصلے سے ہی ہاتھ ہلا کر اشارہ کرنے لگے۔

ساتھیوں کو الوداعی کلمات کہنے کے بعد میں موٹر سائیکل پر یٹھ گیا۔ آدھے گھنٹے کے بعد ہم چلم چوکی پر پہنچے۔ میں نے اسکردو سے نکلنے سے پہلے ہی منی مارگ جانے کی اجازت کی درخواست کی تھی، اور میں امید کر رہا تھا کہ میرے یہاں آنے کے بارے میں پہلے ہی کسی نہ کسی نے چیک پوسٹ کو اطلاع کر دی ہوگی۔

چلم چوکی۔ — فوٹو عثمان احتشام انور۔

چیک پوسٹ کے گارڈ روم سے ایک سپاہی باہر آیا۔ میرا سطحی جائزہ لینے کے بعد انہوں نے چند سوال پوچھے، اور پھر کہا: ''آپ کس کے مہمان ہیں؟''

میرے والد اس وقت کے شمالی علاقہ جات کے کمانڈنگ افسر کو جانتے تھے۔ میں نے سوچا کہ ان کا نام لینے کے بعد مجھے جلد ہی اجازت مل جائے گی۔

اس لیے میں نے پر اعتماد ہو کر جواب دیا، ''میں کمانڈر ناردرن ایریاز کا مہمان ہوں۔''

سپاہی کے چہرے پر غیر یقینی کے آثار نمودار ہوگئے؛ انہوں نے مجھے نیچے سے اوپر دوبارہ دیکھا اور میرے والد کے نام کی تصدیق کرنے کو کہا۔

چیک پوسٹ پر میرے تمام کوائف کی تصدیق ہونے میں تھوڑی دیر لگی، اور پھر مجھے انتظار گاہ میں بٹھایا گیا۔

تھوڑی دیر بعد میں آخرکار منی مارگ جاتی سڑک پر تھا جو 2844 میٹرز کی بلندی پر گاڑھے سبزہ زاروں اور درختوں سے ڈھکے پہاڑوں کے درمیان ایک چھوٹا خوبصورت قصبہ ہے۔ ایک مقامی ٹھیکیدار جمال کو وہاں سامان کی ترسیل کرنی تھی۔

منی مارگ کو جاتی سڑک۔ — فوٹو عثمان احتشام انور۔

منی مارگ کے راستے میں ایک سنگِ میل۔ — فوٹو عثمان احتشام انور۔

منی مارگ کے ہندوستانی سرحد سے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں مجھے اپنی کیمپنگ اور ٹریکنگ کی خواہشات کو لگام دینی پڑی اور مجبوراً (بخوشی سمجھیے) مجھے اپنے خیمے کے بجائے شیل پروف زیر زمین آرامدہ بنکر میں رہنا پڑا۔

منی مارگ کے بعد ہرے بھرے پہاڑوں اور خوبصورت جھیلوں کی سرزمین دومیل آتی ہے۔

پہاڑوں کے دامن میں منی مارگ کا گاؤں۔ — فوٹو عثمان احتشام انور۔

منی مارگ۔ — فوٹو عثمان احتشام انور۔

منی مارگ اور دومیل میں جگہ جگہ بید کے درخت نظر آتے ہیں جن سے کاغذ بنایا جاتا ہے۔ — فوٹو عثمان احتشام انور۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ان دونوں جگہوں تک پہنچنا بہت مشکل ہے، اور ساتھ ہی خصوصی اجازت بھی مطلوب ہوتی ہے، لیکن اس کا یہ فائدہ ہے کہ یہ جگہیں سیاحوں کی پہنچ سے دور ہیں، جو شاید یہاں آتے تو اس جگہ پر مجمع لگا کر ان جگہوں کو آلودہ کر دیتے۔ مگر ان دونوں جگہوں کو صاف ستھرا دیکھ کر خوشی کا احساس ہوتا ہے۔

گھوڑے یہاں آمد و رفت کا سب سے بہترین ذریعہ ہیں۔— فوٹو عثمان احتشام انور۔

شروع میں میرا منصوبہ گھڑ سواری کرتے ہوئے دومیل پہنچنے کا تھا، مگر منی مارگ میں موجود اصطبلوں دیکھنے پر میں سمجھ گیا کہ گھڑسواری کا جو ہنر میں نے بچپن میں سیکھا تھا، اسے ابھی کافی حد تک نکھارنے کی ضرورت تھی۔

گھڑسواری کی امید ختم ہونے پر میں نے اپنا لفٹ مانگنے کا مفید اور آزمودہ طریقہ اپنایا اور ارد گرد دومیل کی طرف جانے والے کسی شخص کا پوچھنے لگا۔ لیجیے ایک 4 بائے 4 گاڑی اگلی دوپہر وہاں جا رہی تھی۔

دومیل کو جاتی سڑک۔ — فوٹو عثمان احتشام انور۔

دومیل۔ — فوٹو عثمان احتشام انور۔

دومیل۔ — فوٹو عثمان احتشام انور۔

دومیل کے راستے میں لکڑی کے کاٹجز پر مشتمل ناگئی نامی ایک دلکش چھوٹا سا گاؤں بھی آتا ہے۔ وہ جگہ درختوں سے ڈھکی سے ڈھکی ہوئی تھی۔

اس خطے کا سہرا دھنک جھیل ہے جس کا رنگ دن کے مختلف اوقات میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔

دومیل میں دھنک جھیل۔ — فوٹو عثمان احتشام انور۔

دومیل میں دھنک جھیل۔ — فوٹو عثمان احتشام انور۔

غوطہ خوری کے لیے بہترین جگہ۔ — فوٹو عثمان احتشام انور۔

جھیل کا شیشے جیسا صاف و شفاف پانی پہاڑی جھرنوں اور چشموں سے اپنا راستہ بناتے ہوئے اس جھیل میں آکر جمع ہوتا ہے۔ میں خود کو جھیل میں چھلانگنے سے روک نہیں پا رہا تھا، خاص طور پر جب میں نے ایک لکڑی کا ریمپ دیکھا جو کہ جھیل میں غوطہ لگانے کے لیے بہترین پلیٹ فارم لگ ہوسکتا تھا۔

مگر جھیل میں غوطہ لگانے کے بجائے میں ایک رافٹ پر سوار ہوگیا جو مجھے جھیل کی دوسرے طرف لے گئی، جہاں کسی پینٹنگ جیسی خوبصورت جگہ پر لکڑی کی جھونپڑی میں کھانا تیار رکھا تھا۔

کھانا بہت ہی لذیذ تھا اور ان پراٹھا رولز سے کہیں زیادہ مختلف تھا جو میں پچھلے چند دنوں سے مسلسل کھا رہا تھا۔ یہ افواہ بھی سننے میں آئی کہ کھانا تیار کرنے والے باورچی کا انتخاب اس خطے کی 'باوثوق' شخصیات نے ذاتی طور پر کیا تھا۔ بلاشبہ یہ ایک زبردست انتخاب ہے اور میں اس کی پرزور تائید کرتا ہوں۔

منی مارگ اور دومیل سحر انگیز جگہیں ہیں تاہم مقررہ ٹریکس سے ہٹنے پر پابندیوں سے میری آوارہ طبیعت کو صدمہ پہنچا۔

مجھے کسی نے آنسو جھیل کے بارے میں بتایا جو کہ دومیل سے کچھ گھنٹوں کی ہائیک پر عین بارڈر پر واقع ہے۔ افسوس کہ مجھے وہاں ٹریکنگ کی اجازت نہیں تھی۔ میں امید کرتا ہوں کہ ایک دن ہندوستان اور پاکستان اپنے اختلافات ختم کر دیں گے جس کے بعد دونوں اطراف کے شہری بنا کسی رکاوٹ ایک دوسرے کے ملکوں کے خوبصورت علاقوں کی سیر و سیاحت کر پائیں گے۔

منی مارگ اور دومیل میں تین دن گزارنے کے بعد اب میں استور روانہ ہونے کے لیے تیار تھا۔ لوکل جیپ وین کی تمام 16 سیٹیں بھری ہوئیں تھیں، وین کی اگلی سیٹ پر بیٹھنے کے لیے سو روپے اضافی دیے، جو صبح 9 بجے استور کے لیے فوراً روانہ ہوگئی اور منی مارگ ہم سے کہیں دور پیچھے رہ گیا۔


عثمان احتشام انور ابنِ بطوطہ کی طرح سفر و سیاحت کے دلدادہ ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: OEAnwar@

عثمان احتشام انور

عثمان اہتشام انور ایک سیاح ہیں۔ وہ عظیم سیاح ابن بطوطہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاحت کر رہے ہیں۔

ان کے دیگر سیاحتی تجربات کو A Wandering Within پر پڑھا جاسکتا ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں @OEAnwar

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔