اسلام آباد : پاکستان نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو 1971 کی جنگ کے مبینہ جرائم پر 45 سال بعد پھانسیاں دینے کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھانے پر غور شروع کر دیا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق اس حوالے سے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے وزیر اعظم نواز شریف سے مشاورت کی۔
ڈان نیوز کی رپورٹ میں کہا گیا کہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے کیا جانے والا سلوک غیرانسانی ہے
وفاقی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ پھانسی کے معاملے پر پوری دنیا خاموش ہے، غیر انسانی پالیسی کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔
دفتر خارجہ کا اظہار افسوس
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمٰن نظامی کی پھانسی پر پاکستان نے شدید افسوس کا اظہار کیا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے ایک بیان میں کہا کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں کو ایک متنازع ٹریبونل کے ذریعے قتل کیا جانا جمہوری اصولوں کی روح کے سراسر خلاف ہے۔
نفیس زکریا نے مزید کہا کہ مطیع الرحمٰن کی پھانسی بنگلہ دیش کے عوام کے لیے بھی افسوسناک ہے کیونکہ ان کو عوام نے ووٹ سے پارلیمنٹ میں اپنا نمائندہ منتخب کیا تھا۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ جب سے سماعت شروع ہوئی ہے متعدد بین الاقوامی تنظیموں، انسانی حقوق کے اداروں اور عالمی رہنمائوں نے اس پر اعتراضات کیے ہیں اور اس کی شفافیت پر سوال اٹھایا جاتا رہا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ وکلاء اور گواہوں کو ہراساں کرنے کی اطلاعات بھی سامنے آتی رہی ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کی حکومت کی جانب سے عدالتوں پر قدغن کے اقدامات کے حوالے سے عالمی برادری اعتراض کر چکی ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے زور دیا کہ بنگلہ دیش کی حکومت کو 1974 کے سہہ فریقی معاہدے کی پاسداری کرنی چاہیے جس کے تحت کسی بھی قسم کی عدالتی کارروائی نہ کرنا عام معافی کے مترادف کہلایا تھا۔
قومی اسمبلی میں قرارداد منظور
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمٰن نظامی کو پھانسی دیئے جانے پر پاکستان کی قومی اسمبلی نے مذمتی قرارداد منظور کی۔