امریکی شاعرہ مرئیل رکائسر نے کہا ہے کہ یہ کائنات ایٹم سے نہیں بلکہ کہانیوں سے بنی ہوئی ہے۔
کہانیاں یا افسانے ہمیں نہ صرف معاشرے میں رائج رجحانات کے بارے میں بتاتے ہیں، بلکہ یہ تاریخی واقعات اور حالات کو بیان کرنے کے لیے ایک ایسی بہترین صنف ہے جس کے ذریعے ایک افسانہ نگار اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ایسی ایسی شاہکار تحریروں کو جنم دیتا ہے جن کا اثر صدیوں تک جاری رہتا ہے۔
کبھی یہی افسانے تمثیل میں لکھے جاتے ہیں تو کبھی تلخ حقائق کو نرم الفاظ کا لبادہ پہنا کر بیان کیا جاتا ہے، اور ایک شاہکار افسانہ قاری پر سحر طاری کر دیتا ہے۔
آج کم و بیش دنیا کی ہر زبان کے ادب میں ہمیں شاہکار کہانیاں ملتی ہیں۔ اردو ادب کی خوش قسمتی رہی ہے کہ اسے اپنی کہانیوں کے ذریعے ایک طلسم کدہ تعمیر کرنے والا کرشن چندر، امرتا پریتم جیسی حقیقت نگار اور راجندر سنگھ بیدی جیسے بہترین افسانہ نگار بھی ملے۔
اسی ادب نے عصمت چغتائی کے دیوانے پیدا کیے اور احمد ندیم قاسمی سے لے کر ابدال بیلا تک ایسے معتبر افسانہ نگار دیے جنہیں آج بھی بڑے احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔
مگر اردو افسانے کا ذکر تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس میں سعادت حسن منٹو کو شامل نہ کیا جائے، جن کی زندگی تو تمام ہوگئی مگر ان کے قلم کی سیاہی کبھی ختم نہ ہوئی اور وہ تک تب افسانے لکھتے رہے جب تک انہوں نے اپنے بستر پر ہی ہمشہ کے لیے آنکھیں بند نہ کیں۔
14 اگست 2012 کو بعد از مرگ نشانِ امتیاز سے نوازا گیا.
منٹو آج بھی بہت سے لوگوں کے ناپسندیدہ افسانہ نگار ہونے کے باوجود وہ بہت سوں کے پسندیدہ افسانہ نگار بھی ہیں۔ لیکن ان حضرات کے بارے میں کیا کہا جائے جو ہمیشہ منٹو کے پڑھنے والوں کو یہی تاکید کرتے رہتے ہیں کہ "بچوں کو منٹو کی کہانیوں سے دور رکھیں"، مگر وہ خود ان کے افسانے چھپ چھپ کر پڑھتے رہتے ہیں، اور ان کے افسانوں میں جنسی لذت کا پہلو تلاش کرتے ہوئے بھرپور لطف اٹھاتے ہیں۔
شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں منٹو نے کہا تھا کہ معاشرے کے تاریک پہلوؤں سے پردہ اٹھاتی میری تلخ کہانیوں میں اگر آپ کو جنسی لذت نظر آتی ہے تو یقیناً آپ ذہنی طور پر بیمار ہیں۔
وہ شراب پیتے، پان چباتے اور سگریٹ سلگاتے تھے، مگر ان کے افسانے نہ تو پان چباتے ہیں اور نہ ہی شراب پیتے ہیں، بلکہ وہ ایسا سچ بیان کرتے ہیں جو ہم سے ہضم نہیں ہوتا۔
مگر انہیں کیا پڑی تھی ایسے ایسے کڑوے سچ لکھنے کی کہ جسے پڑھنے کے بعد لوگ اپنے دانت پیسنے لگیں اور منہ بسور کر منٹو پر گالیوں کی بوچھاڑ کردیں؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی لکھاری یا ادیب کا دل اس کے معاشرے میں ہونے والے ظلم و ستم، ناانصافی اور دوغلے رویوں پر بھی حرکت میں نہیں آتا تو اس سے بہتر ہے کہ وہ کوئی کاروبار کر لے.
جو ادب لوگوں کو خوش کرنے کے لیے لکھا جائے، وہ ادب ادب نہیں بلکہ صرف لفاظی ہوتی ہے، جو کہ کوئی بھی الفاظ کا جادوگر آسانی سے کر سکتا ہے، لیکن معاشرے کو ناراض کر کے حقائق لکھنا ہی ایک حقیقی ادیب کا کام ہے۔
انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ "مجھے آپ افسانہ نگار کی حیثیت سے جانتے ہیں، اور عدالتیں ایک فحش نگار کی حیثیت سے، حکومت مجھے کمیونسٹ کہتی ہے اور کبھی ملک کا بہت بڑا ادیب۔ کبھی میرے لیے روزی کے دروازے بند کیے جاتے ہیں اور کبھی کھولے جاتے ہیں۔ میں پہلے بھی سوچتا تھا اور اب بھی سوچتا ہوں کہ میں کیا ہوں۔ اس ملک میں جسے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کہا جاتا ہے، میرا مقام کیا ہے، میرا اپنا مصرف کیا ہے؟"