پاکستان

مشکلات میں گِھرے نواز شریف، طیب اردگان سے متاثر

اعلیٰ سطح کے اجلاس میں اکثر اوقات پاکستان اور ترکی کے درمیان موازنہ کیا جاتا ہے، ذرائع

اسلام آباد: پاناما لیکس اور سول ملٹری تناؤ میں گِھرے وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کو ترک صدر رجب طیب اردگان کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔

وزیر اعظم گزشتہ چند ہفتوں سے، اپنے مشیروں، کابینہ اراکین، مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں اور اتحادیوں سے مسلسل مشاورت کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مشاورتی اجلاس میں وزیر اعظم ایک سے زائد بار رجب طیب اردگان کا حوالہ دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ کیسے انہوں نے طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی مخالفین کا سامنا کیا۔

ذرائع کے مطابق چند پارٹی رہنماؤں نے وزیر اعظم کو، اپوزیشن جماعتوں کے خلاف سخت موقف اپنانے سے بچنے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات اسطوار رکھنے کا مشورہ دیا۔

تاہم اپنے خاندان کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات، پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے حوالے سے 9 جماعتی اپوزیشن اتحاد اور آرمی چیف کے بلاامتیاز احتساب کے بیان کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے چند رفقا کا ماننا ہے کہ حکومت کو اپنے موقف پر قائم رہنا چاہیے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی جانب سے عوامی رابطہ مہم میں تیزی، حکومت کی اسی سوچ کا حصہ ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر وزیر کے مطابق شریف برادران کی جانب سے ترکی کی طرز حکومت اور قیادت کی تعریف کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔

ان سینئر وزیر سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا اعلیٰ سطح کے اجلاس میں یہ معاملہ باقاعدہ زیر بحث آتا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ہاں، وزیر اعظم کے غیر منتخب معاونین اکثر پاکستان اور ترکی کی طرز حکومت کا موازنہ کرتے ہیں، جس میں وزیر اعظم بھی حصہ لیتے ہیں۔

وزیر نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ حالیہ اجلاس میں وزیراعظم نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اگر طیب اردگان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باوجود بھی حکومت کرسکتی ہے، تو قومی اسمبلی میں اکثریت رکھنے والی مسلم لیگ (ن) کیوں حکومت نہیں کرسکتی۔

وزیر اعظم کے قریبی مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز نے سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ جنرل راحیل شریف کا بلاامتیاز احتساب کے بیان کے بعد حکومت شدید دباؤ میں ہے۔

حکومت پر یہ دباؤ اس طرح بھی واضح ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف کی گزشتہ کئی ہفتوں سے ملاقات نہیں ہوئی، دونوں کی آخری ملاقات 6 اپریل کو قومی سلامتی کے اجلاس میں ہوئی تھی۔

لیکن سینئر سیکیورٹی عہدیدار سے جب سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کے حوالے سے پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت، کراچی میں امن لانے کا کریڈٹ خود کو دیتی ہے، جو کہ وہاں رینجرز کی تعیناتی کے باعث ممکن ہوا، لیکن جب آرمی کی قیادت دوسرے شعبوں میں بھی بہتری لانے کا کہتی ہے تو حکومت ناراض ہوجاتی ہے۔

رواں سال اپریل میں فوج نے، پاک چین اقتصادی راہداری کے معاملات کی نگرانی کے لیے ایک اتھارٹی کے قیام کی تجویز دی تھی، لیکن تاحال اس تجویز کو ماننے میں ہچکچا رہی ہے۔

اسی طرح ایسٹر کے موقع پر لاہور کے گلشن اقبال پارک میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد فوج نے حکومت سے، پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کو قانون ی تحفظ فراہم کرنے اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف فوجی آپریشن کا مطالبہ کیا تھا، جسے حکومت نے قبول نہیں کیا۔

یہ خبر 9 مئی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔