پاناما پیپرزسامنے لانے والے شخص نےخاموشی توڑ دی
کراچی: پاناما پیپرز کو لیک کرنے والے مخبر 'جون ڈو' نے لیکس کے پیچھے موجود دستاویزات کو حکومتوں کو فراہم کرنے کی پیشکش کے ساتھ ساتھ مناسب تحفظ کا مطالبہ کردیا۔
جرمن اخبار 'Süddeutsche Zeitung' اور انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیشن جرنلسٹ (آئی سی آئی جے) کو جاری کیے گئے بیان میں گمنام ذرائع 'جون ڈو' نے واضح کیا کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر کسی حکومت یا انٹیلی جنس ایجنسی کے لیے کام نہیں کرتے اور ان دستاویزات کو لیک کرنے کے فیصلے کے پیچھے کوئی سیاسی مقاصد نہیں تھے بلکہ انھوں نے یہ کام 'ناانصافیوں کے بیان کردہ پیمانے' کی وجہ سے کیا۔
مزید پڑھیں:’آف شور‘ اکاؤنٹس کیا ہیں؟
'دی ریولوشن وِل بی ڈیجیٹائزڈ' (The Revolution Will Be Digitised) کے عنوان سے شائع ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا کہ 'اگر صرف قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں ہی ان اصل دستاویزات تک رسائی حاصل کرکے ان کی جانچ کرلیں تو پاناما پیپرز سے ہزاروں کی تعداد میں مقدمات کا آغاز ہوسکتا ہے۔ آئی سی آئی جے اور ان کی شراکت دار پبلیکیشن نے درست کہا ہے کہ وہ انھیں کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کو فراہم نہیں کریں گے لیکن میں اُس حد تک قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کروں گا، جتنا میں کرسکتا ہوں۔'
ایڈورڈ اسنوڈن اور بریڈلے برکن فیلڈ کا حوالہ دیتے ہوئے ڈو نے مخبروں کے لیے مخصوص تحفظ کا بھی مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک 'جائز مخبر' حکومتی عتاب سے استثنیٰ کا مستحق ہے۔
یہ بھی پڑھیں:شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف
پاناما پیپر کو سامنے لانے والے شخص نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے لاء فرم 'موزیک فانسیکا' کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ اس وجہ سے کیا کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس کے بانی، ملازمین اور کلائنٹس کو جواب دہ ہونا چاہیے کیونکہ کاغذی کمپنیاں بالعموم نہ صرف ٹیکس چوری کے جرم میں ملوث ہوتی ہیں بلکہ انھیں سنگین جرائم کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
مجموعی ناکامی
ڈو نے اپنے بیان میں کہا کہ موجودہ نظام امیروں کو قانون کی گرفت میں لانے میں ناکام ہوگیا ہے اور میڈیا اور قانون بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔ ان کا خیال ہے کہ بینکوں، مالیاتی ریگولیٹرز اور ٹیکس حکام 'امیروں کو چھوڑنے' اور درمیانے اور کم آمدنی والے شہریوں کو قابو کرنے کے فیصلوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وکلاء بھی بڑی حد تک کرپٹ ہیں جبکہ بڑے بڑے دعووں کے باوجود متعدد بڑے میڈیا اداروں نے اس معاملے کی کوریج نہ کرنے کا فیصلہ کیا، جن کے ایڈیٹرز کو پاناما پیپرز کی دستاویزات کا جائزہ لینے کی اجازت دی گئی تھی۔
مزید پڑھیں : امیتابھ ،ایشوریا کا نام بھی پاناما لیکس میں شامل
ڈو کا اپنے بیان میں مزید کہنا تھا کہ کڑوا سچ یہ ہے کہ دنیا کی بڑی اور مشہور میڈیا تنظیموں میں سے کوئی ایک بھی اس اسٹوری میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا، حتیٰ کہ وکی لیکس نے بھی اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا تھا'۔
یہ خبر 7 مئی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔