نقطہ نظر

ہلاکت دورانِ حراست

ایم کیو ایم کے مشتبہ طور طریقے اپنی جگہ، مگر رینجرز کے اعمال کو اخلاقی یا قانونی بنیادوں پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔

جب بے انتہا طاقت و اختیار حاصل ہو، تو ان کے ناجائز استعمال کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اور یہ چیز منگل کے روز متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینیئر کارکن اور ڈاکٹر فاروق ستار کے کوآرڈینیٹر آفتاب احمد کی موت کے ساتھ بھیانک انداز میں واضح ہو چکی ہے۔

انہیں موت سے صرف 48 گھنٹے قبل ہی قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے 90 دن کے لیے حراست میں لیا تھا، جس کے بعد وہ رینجرز کی تحویل میں تھے۔

رینجرز کا دعویٰ، کہ آفتاب احمد کو سینے میں درد کی شکایت کے بعد زندہ حالت میں ہسپتال لایا گیا تھا جہاں وہ داخلے کے 25 منٹ بعد انتقال کر گئے، ہسپتال حکام کے اس بیان سے متصادم ہے کہ مریض کو لائے جانے پر "نبض اور بلڈ پریشر بالکل موجود نہیں تھا۔"

اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ نیم عسکری ادارہ خود کو الزامات سے مبراء رکھنے کے لیے حقائق کو کس قدر مسخ کر سکتا ہے۔ ایک 42 سالہ قیدی کے تحویل میں لیے جانے کے صرف 2 دن بعد دل کے دورے سے ہلاک ہونے کو تحقیقات کی وجہ ضرور بننا چاہیے۔

اور جب سوشل میڈیا پر آفتاب احمد کے تشدد زدہ جسم کی دل دہلا دینے والی تصاویر سامنے آئیں، تو اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ ان کے ساتھ دورانِ حراست کیا سلوک کیا گیا تھا۔ اس بات کا اعتراف ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے بھی بعد میں کیا۔

ستمبر 2013 میں کراچی آپریشن شروع ہونے کے بعد رینجرز کو خصوصی اختیارات دیے گئے، جس کا دائرہ کار قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں تک بڑھا کر انہیں دہشتگردی کے مرتکب یا دہشتگردوں کے سہولت کار ہونے کے شبہے میں لوگوں کو گرفتار کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ تب سے لے کر اب تک ماورائے عدالت قتل کا مسئلہ کراچی آپریشن پر بدنما داغ بن چکا ہے۔

شاید یہ آزادی ہی مسئلے کی ایک وجہ ہے: انسدادِ دہشتگردی ایکٹ 1997 کی شق 11EEEE، جس کے تحت مشتبہ افراد کو 90 دن تک کے لیے حراست میں رکھا جا سکتا ہے، معاملے میں عدلیہ کا کردار بالکل ختم کرتے ہوئے صرف ایک شرط لگاتی ہے کہ ہر حراست سے قبل عدالت کو آگاہ کیا جائے۔

اس نے بظاہر رینجرز کو 'امن و امان کی بحالی' کے لیے ہر طرح کی حدود و قیود سے مستثنیٰ کر دیا ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان ایم کیو ایم کو پہنچا ہے۔

نہ صرف یہ عام معلومات میں ہے کہ عدالت کو کئی حراستوں کا تاخیر سے بتایا جاتا ہے، بلکہ رینجرز پر جعلی مقابلوں میں یا تشدد کر کے مار ڈالنے اور لاشیں پھینک دینے کے الزامات بھی اکثر لگتے رہے ہیں۔

جبکہ دوسری جانب جنہیں خاموشی سے رہا کر دیا جاتا ہے، انہیں اپنی آپ بیتی کے بارے میں منہ بند رکھنے کا کہا جاتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ وہی فورس ہے جو اپنے اختیارات میں اضافے سے قبل بھی عام شہریوں کے خلاف پرتشدد زیادتیوں کی مرتکب ہوچکی ہے، جس میں 2011 میں کراچی کے ایک پارک میں غیر مسلح نوجوان کا قتل بھی شامل ہے۔

جنرل راحیل شریف نے درست طور پر آفتاب احمد کی موت کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ بھلے ہی تحقیقات شفاف ہونی چاہئیں اور ملوث افراد کو سزا ملنی چاہیے، مگر اس واقعے کے بعد وفاقی حکومت کو پیراملٹری فورس کو حاصل اختیارات پر غور کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ ان سے انصاف کو کس قدر فائدہ ہوتا ہے۔

حکومت میں ہونے کے دوران ایم کیو ایم کے مشتبہ طور طریقے اپنی جگہ، مگر رینجرز کے اعمال کو اخلاقی یا قانونی بنیادوں پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 5 مئی 2016 کو شائع ہوا۔

اداریہ