'ترکی بھیجے جانے سے مر جانا بہتر ہے' — یونان میں پھنسے پاکستانیوں کی حالتِ زار
بہار کے ان دنوں میں یونانی جزیرہ لیسبوس بھی پوری طرح کھل اٹھا ہے۔ سورج نے بحرہ ایجیئن کو گرم کر کے تیراکی کے قابل کر دیا ہے۔
مائٹیلینی پورٹ کے قریب میں نے دو نوجوان پاکستانیوں کو دیکھا جو بستی کیمپ کی طرف لوٹنے سے پہلے سمندر کے نمکین پانی سے خود کو صاف کر رہے تھے۔ وہ اُس بستی کیمپ میں پچھلے کچھ ہفتوں سے قیام پذیر ہیں۔
میں پانچ سال سے زائد عرصے سے یورپ کی طرف ہجرت کرنے والوں کی کہانیاں کور کر رہی ہوں، مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ یونان میں موجود پاکستانی تارکینِ وطن ورکرز اس کہانی کا آخری باب ثابت ہوں گے۔
لوگوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہونا شروع ہو گیا ہے اور یہ معاشی تارکینِ وطن پورے یونان اور سابق یوگوسلاویا میں پھنسے ہوئے ہیں. جیسے جیسے انہیں اپنی قسمت کا حال معلوم ہوتا جا رہا ہے، ان کی مایوسی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
وہ مستقبل قریب میں جرمنی یا برطانیہ نہیں پہنچ سکتے کیونکہ یورپی یونین کے ایک ماہ قبل طے پانے والے معاہدے کے تحت مہاجرین کو یونان سے ترکی بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔