صحافی کی ڈائری: پی این ایس ذوالفقار کا بحری سفر
صحافی کی ڈائری: پی این ایس ذوالفقار کا بحری سفر
یہ تین حصوں پر مشتمل سریز کا دوسرا مضمون ہے۔ پہلا حصہ یہاں پڑھیے۔
دوسرا دن
7 بجے: آج میں وقت پر اٹھا۔ باہر اب تک اندھیرا تھا اور دھند چھائی ہوئی تھی۔
اس دن کا پلان کل سے تھوڑا مختلف تھا — اس بار کسی ہوائی جہاز کے بجائے فیول سے بھرا ہوا اور سمندری سفر طے کرنے کے لیے تیار ایک تباہ کن اور مسلح بحری جہاز کراچی میں نیول ڈاکیارڈ پر ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کمانڈر پاکستان فلیٹ (COMPAK) وائس ایڈمرل عارف اللہ حسینی نے ہمیں بحریہ ٹیکٹیکل ٹریننگ اسکول میں بحری فوج کے جان جوکھم میں ڈالنے والے کاموں کے بارے میں بریف کیا۔
نیول ڈاکیارڈ کے راستے میں گفتگو کا رخ مبینہ طور پر دشمنوں کے ساتھ ملے ہوئے افسر کے بحری جہاز اغواء کرنے کے بدنام زمانہ واقعے کی طرف ہوا۔
ماحول تب مزیدار ہوگیا جب صحافیوں نے نیول افسران سے زبان زدِ عام کہانیوں کی تصدیق کرنے کو کہا — ان کے چہروں پر گھبراہٹ کے آثار نمودار ہونا بجا تھے جسے انہوں نے جبری مسکراہٹ سے چھپانے کی کوشش کی۔ اتنے میں ان کے ایک ساتھی افسر بول پڑے کہ وہ اس واقعہ کے بارے میں کم علم رکھتے ہیں کیونکہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔
یہ سن کر صحافی ہنس پڑے اور اپنی قیاس آرائیاں جاری رکھیں کہ اس رات کیا ہوا ہوگا۔