نقطہ نظر

مرد سے 'کمتر' عورت

جن معاملات میں عورتوں کو مردوں سے 'مختلف' قرار دیا گیا ہے، ان کی بنا پر عورتوں کو ہر معاملے میں کمتر کیوں کہا جاتا ہے؟

ہم اپنے ہر خیال، عمل اور رویے کے لیے دلائل تلاش کرتے ہیں، تو سب سے پہلے نہیں تو سب سے آخر میں قرآن و حدیث تک پہنچ جاتے ہیں۔ چاہے معاملہ کوئی بھی ہو، ہمارا سب سے اہم حوالہ اللہ کا کلام اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات ہیں۔

عموماً قران اور حدیث میں سے ایک دو باتوں کا حوالہ دے کر خواتین کو مردوں سے کم تر اور کم عقل قرار دے دیا جاتا ہے جس کی بنیاد پر پاکستان میں اکثر عورتوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے، جسے عام زبان میں صنفی امتیاز یا صنفی تفریق کہہ سکتے ہیں۔

جن حقوق سے محروم کیا جاتا ہے، ان میں تعلیم حاصل کرنا، اپنا کریئر بنانا، گھر کے فیصلوں میں اس کی رائے لینا، مرد کولیگز کے برابر تنخواہ وغیرہ شامل ہیں۔

روز مرہ کی زندگی میں جن قرآنی معلومات اور احادیث کو ہم دن رات دہراتے رہتے ہیں ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

سب سے پہلی بات کہ اللہ کو کون زیادہ محبوب ہے، مرد یا عورت؟ تو قرآن میں بارہا ایک ہی بات دہرائی گئی ہے کہ تم میں سے اللہ کے نزدیک معتبر وہ ہے جس کا تقویٰ بہتر ہے۔ یہی بات حجۃ الوداع کے موقع پر بھی رسول اللہ ﷺ نے دہرائی کہ عربی کو عجمی پر اور کالے کو گورے پر، الغرض کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں سوائے تقویٰ کے، یعنی جو اللہ سے زیادہ سے زیادہ ڈرے، محبت کرے، عبادت کرے، وہی اللہ کو محبوب ہے۔ اس میں مرد و عورت کی کوئی تفریق نہیں، نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ عورت کی عبادت کا ثواب مرد کی عبادت سے نصف ہوگا۔

جب اللہ کے نزدیک دونوں ہی برابر ہیں، تو پھر ہمارے معاشرے میں مرد کو عورت پر فوقیت کیوں حاصل ہے؟ پاکستان کی اکثریتی آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، جہاں مرد مختارِ کُل کا درجہ رکھتا ہے، جبکہ خاندانی معاملات میں عورت کا کردار نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

ایک اور حدیث میں ہر مسلمان مرد اور عورت پر علم حاصل کرنا فرض کہا گیا ہے، اس میں بھی مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہیں، اور شاید عورت کا تذکرہ نام لے کر اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ اندازہ ہوگا کہ دورِ جاہلیت پھر سے لوٹ کر آئے گا جب عورتوں کو شاید زندہ دفن تو نہیں کیا جائے گا، لیکن قبائلی اور سرداری نظام میں جب ان کو ان کے جائز حقوق سے محروم کر دیا جائے گا، تب صرف علم ہی ہوگا جو ان کی زندگی بہتر بنانے میں ان کے کام آسکے گا۔

پاکستان کے شہری علاقوں میں تو خواتین تعلیمی میدان میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں، یہاں تک کہ چند رپورٹس کے مطابق اعلیٰ تعلیم میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، مگر ایسا ذہنیت کی مجموعی تبدیلی کی وجہ سے نہیں ہے۔ ابھی بھی لڑکی کے کالج میں پہلا قدم رکھتے ہی خاندان بھر کی چچیوں، پھپھیوں، مامیوں اور خالاؤں کو اس کے رشتے کی فکر کھانے لگتی ہے۔ ایک دفعہ شادی ہوئی نہیں کہ تعلیم کے سارے دروازے لڑکی پر بند ہوجاتے ہیں۔ یہ کیوں نہیں سوچا جاتا کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ماں ہی اپنے بچوں کی سخت مسابقت کے اس دور میں بہترین پرورش کر سکتی ہے۔

ایک ایسا دور جہاں تعلیم کا معیار سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا ہے، اور ٹیکنالوجی دن بہ دن ترقی کرتی جا رہی ہے، وہاں اگر لڑکیاں تعلیم یافتہ نہیں ہوں گی، تو وہ اپنے بچوں کی ذہنی و جسمانی نشونما کیسے کر سکیں گی؟

اس سے بھی زیادہ یہ کہ کیونکہ پاکستان کی 51 فیصد سے زائد آبادی خواتین پر مشتمل ہے، اس لیے اگر یہ آبادی اپنی صلاحیتوں کو ٹھیک سے استعمال نہیں کرتی تو نتیجتاً ہمارا ملک اقتصادی و تعلیمی دوڑ میں پیچھے ہی رہ جائے گا۔

ایک صحابی نے عرض کی کہ مجھ پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، تیری ماں کا، دوبارہ دریافت کیا گیا، دوبارہ فرمایا، تیری ماں کا، سہ بارہ دریافت کرنے پر بھی یہی جواب ملا، چوتھی بار جواب دیا گیا، تیرے باپ کا۔ جن لوگوں کو عورتوں کی آدھی گواہی اور وراثت میں مرد کی نسبت آدھا حصہ نظر آتا ہے انہیں ماں کی باپ پر تین گنا فضیلت کیوں نظر نہیں آتی؟

باپ کی جائیداد میں عورت کا حصہ مرد کے حصے سے آدھا ہے، کیوں کہ اسے ایک حصہ اپنے شوہر سے مہر کی صورت ملنا ہوتا ہے۔ ایک غلط فہمی جو ہمارے معاشرے میں عام ہے کہ عورت نے مہر معاف کر دیا یا معاف کروا لیا گیا، تو شوہر مہر سے بری ہوگیا۔ بلکہ وراثت کی طرح مہر بھی کسی صورت معاف نہیں ہوتا اور شوہر اس سے بری نہیں ہوسکتا۔ یہ عورت کا حق ہے اور کسی صورت اس سے مفر نہیں۔ جو مرد مہر ادا نہیں کرتا وہ ہمیشہ گناہ گار رہتا ہے، اور اسی حالت میں مرنے کی صورت میں وہ مقروض رہے گا۔

ہمارے معاشرے میں اب بھی یہ چیز عام ہے کہ لڑکیوں کی شادی برادری کے اندر ہی کی جائے، جبکہ لڑکے کو خاندان کے باہر کہیں بھی شادی کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ عام طور پر ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ خاندانی جائیداد، زمین، وراثت میں لڑکی کا حصہ خاندان کے اندر ہی رہے، جبکہ لڑکے کے معاملے میں یہ قید ظاہر ہے موجود نہیں۔ کیا اس کا کوئی اسلامی حوالہ موجود ہے؟

اس کے برعکس اسلام نہ صرف لڑکی کو وراثت میں حصہ دار قرار دیتا ہے، بلکہ اسلامی معاشرے یا ملک میں عورت بزنس کر سکتی ہے، اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے، خود شادی کا پیغام دے سکتی ہے، بچپن کا نکاح اگر پسند نہ ہو تو وہ اسے ختم بھی کر سکتی ہے، لیکن یہ باتیں ہمارے لوگوں کے نزدیک اب بھی ایک شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ خاص طور پر بچپن کی شادی سے انکار کرنے کا تو لازمی مطلب خون خرابہ (اگر دیہی معاشرہ ہے تو) یا زندگی بھر کی بدنامی اور طعنے (اگر شہری ہے تو۔)

جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شادی بی بی فاطمہ بنت محمد ﷺ سے ہونے لگی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ گھر داری کے لیے کیا انتظام ہے، پھر پوچھا کہ تمہارے پاس کیا ہے، فرمایا ایک زرہ اور ایک تلوار۔ رسول اللہ نے تلوار علی رضی اللہ کو واپس کردی اور زرہ فروخت کر کے گھر کے لیے ایک چکی، ایک بستر اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کا بندوبست فرمایا۔ اس سے یہی پتا چلتا ہے کہ جہیز یا گھرداری کا انتظام مرد کی ذمہ داری ہے۔

صبح شام ہر بات میں اسلام کے حوالے دینے والے لوگ یہ بات پتہ نہیں کیوں بھول جاتے ہیں؟ لڑکی والوں سے لاکھوں روپے کے جہیز کے مطالبے کرنے کی لعنت ایسی ہے جس سے نہ ہی پاکستان کا شہر محفوظ ہے اور نہ گاؤں۔ اس کی وجہ سے کئی لڑکیوں کی شادیاں نہیں ہو پاتیں، اور لڑکے والوں کے جہیز کے مطالبات پورے کرتے کرتے گھر والوں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ نہ پورے کریں تو لڑکی کو زندگی بھر کے طعنے۔

ایک حدیث میں بیٹی کو اللہ کی رحمت کہا گیا ہے جبکہ ہم اس رحمت کی ناشکری اور ناقدری کرتے نہیں تھکتے۔ ایک اور حدیث میں عورت کو خوش قسمت کہا گیا ہے، جس کی پہلی اولاد بیٹی ہو۔ ایک حدیث میں اس شخص کو روزِ قیامت رسول اللہ ﷺ کی ہمراہی کی بشارت دی گئی ہے جس نے اپنی دو بیٹیوں کی اچھی پرورش کی ہو، مگر کون ہوگا جو ایک کے بعد دوسری بیٹی کی پیدائش پر کم از کم افسردہ نہ ہوتا ہو؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف چند معاملات میں جہاں عورتوں کو مردوں سے مختلف قرار دیا گیا ہے، ان کو بنیاد بنا کر عورتوں کو ہر معاملے میں صنفی تفریق کا نشانہ کیونکر بنایا جائے؟ بظاہر اس کی وجہ صرف ایک ہی نظر آتی ہے کہ اسلام کا نام صرف اس لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ دوسرے فریق کو خاموش کروایا جا سکے کیونکہ دیگر مقامات پر اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے عورت کو مرد کے برابر اور چند مقامات پر مردوں سے افضل بھی قرار دیا ہے۔

— لکھاری کا نام شناخت کے تحفظ کے لیے تبدیل کر دیا گیا ہے۔

ثمینہ ہادی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔