رینجرز کی حراست میں ہلاک ہونے والے ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کے کوآرڈینیٹر آفتاب احمد کی والدہ کا مطالبہ۔
کراچی: رینجرز کی حراست میں ہلاک ہونے والے آفتاب احمد کی میت وصول کرنے کے بعد ان کی والدہ سلیمہ بی بی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بیٹے کی ہلاکت پر انصاف کی اپیل نہیں کریں گی بلکہ ان کا حکام سے مطالبہ ہے کہ جن لوگوں نے ان کے بیٹے کے ساتھ یہ کیا ہے ان کے ساتھ بھی بالکل ویسا ہی سلوک کیا جائے۔
ہاتھ میں اپنے بیٹے کی تصویر تھامے ضعیف سلیمہ بی بی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا، 'میرے بیٹے کو بغیر کسی وجہ کے ہلاک کیا گیا، میرے پاس اس کے بچوں کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے، جس نے یہ سب کیا ہے اس کے ساتھ بھی بالکل اسی طرح کا سلوک کیا جانا چاہیے'۔
بدھ کی شام ساڑھے 5 بجے فیڈرل بی ایریا (دستگیر) میں واقع آفتاب احمد کی ساس کے گھر پر تعزیت کرنے والے کچھ افراد بیٹھے تھے، جن میں سے زیادہ تر دوست احباب اور رشتے دار تھے۔ سلیمہ بی بی ہاتھ میں تسبیح تھامے مسلسل وِرد کر رہی تھیں۔ اس گھر کے عقب میں ایک 2 منزلہ زیرِ تعمیر مکان کا کام اُس وقت ادھورا رہ گیا، جب بقول سلیمہ بی بی چند دن قبل سادہ لباس مسلح اہلکار ان کے بیٹے آفتاب کو اپنے ساتھ لے گئے۔
آفتاب احمد — فوٹو : بشکریہ ایم کیو ایم آفیشل ویب سائٹ
ان کا کہنا تھا کہ یہ مکان آفتاب تعمیر کروا رہا تھا، جو دونوں خاندانوں کے قریب رہنا چاہتا تھا۔ سلیمہ بی بی نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ بتایا، 'ہم ملیر میں رہائش پذیر تھے، لیکن 2 سال قبل ہی یہاں منتقل ہوئے کیوں کہ وہ (آفتاب) مجھے اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا۔'
احمد 4 بہن بھائیوں (2 بھائی اور 2 بہنوں) میں سب سے چھوٹا تھا، جس کے 5 بچے تھے۔
13 سالہ تحریم آفتاب اپنے کزنز کے ہمراہ ایک صوفے پر بیٹھی تھی۔ 5 سالہ اشنا نے اپنے دیگر بہن بھائیوں 8 سالہ ہدیٰ، 10 سالہ ابان اور 3 سالہ ایان کا ذکرکرتے ہوئے بتایا کہ ان کی 3 سالہ بہن اپنی والدہ کے ساتھ ہے اور وہ باہر آنے سے خوفزدہ ہے۔
آفتاب احمد 1990 سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے وابستہ تھے، جو 2002 سے ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنویئر ڈاکٹر فاروق ستار کے کورآڈینیٹر کے طور پر کام کر رہے تھے۔
مزید پڑھیں:متحدہ کارکن کی ہلاکت،آرمی چیف کاتحقیقات کا حکم
سلیمہ، جن کے آنسو اب تھم چکے تھے، نے دوبارہ گفتگو کا آغاز کیا اور بتایا کہ کس طرح آفتاب اُس وقت اپنے والد سے محروم ہوگیا جب وہ صرف 6 سال کا تھا، 'میں نے اپنے چاروں بچوں کو ملیر کے ایک اسکول میں ماسی کی حیثیت سے کام کرکے پالا۔ جب اسے (آفتاب کو) لے جارہا رہا تھا تو میں دروازے کی چوکھٹ پر ہی کھڑی تھی۔'
انھوں نے بتایا کہ وہ اتوار کی سہ پہر پونے 4 بجے کا وقت تھا، جب احمد کی ساس کے گھر کے عقبی دروازے کے قریب 2 گاڑیاں آکر رکیں، 'وہ مکان کی تعمیر کرنے والے مزدوروں کو ہدایات دے رہا تھا جب سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے اسے اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، وہ اسے گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے۔ آفتاب کے سسر ان کے پیچھے گئے لیکن انھوں نے ان کو بھی پیچھے دھکیل دیا۔'
مجھے بتایا گیا کہ اس کا انتقال ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوا، یہ سچ نہیں ہے —والدہ آفتاب احمد
سلیمہ بی بی نے بتایا کہ شور کی آوازیں سن کر دیگر رشتے دار اور پڑوسی بھی آئے لیکن وہ بھی پیرا ملٹری فورس کے اہلکاروں کو آفتاب کو اپنے ساتھ لے جانے سے نہ روک سکے۔
ابتداء میں ہچکچاہٹ کا شکار کچھ اہلخانہ نے بھی اس موقع پر بات چیت میں حصہ لیا اور بتایا کہ انھوں نے اُسی شام لاپتہ افراد کے ذمرے کے تحت ایف آئی آر درج کروادی تھی لیکن اُس وقت تک شاید بہت دیر ہوچکی تھی۔ احمد کی سالی ماریہ خان نے بتایا کہ 'انھیں (آفتاب) کو اگلے دن انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ لے لیا گیا جس سے ہمارا کیس کمزور ہوگیا'۔
آفتاب کی بھتیجی ثریا نے بتایا کہ اس نے نیوز چینل پر ٹکرز دیکھے اور دیگر لوگوں کو اطلاع دی کہ انھیں انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا جاچکا ہے اور عدالت کی جانب سے اہلخانہ سے ملاقات کا وقت بھی دیا گیا ہے۔ 'جب ہم عدالت پہنچے تو انھیں (آفتاب کو) جلدی میں وہاں سے لے جایا جارہا تھا جبکہ انسداد دہشت گردی عدالت نے انھیں 90 روزہ ریمانڈ پر رینجرز کی تحویل میں دے دیا اور چونکہ ان کے چہرہ ڈھکا ہوا تھا، مجھے صرف ان کی نیلی چپلیں نظر آئیں جو انھوں نے اُس دن پہن رکھی تھیں جب انھیں لے جایا گیا تھا'۔
یہ بھی پڑھیں: ڈی جی رینجرز کا ایم کیو ایم کارکن پر دوران حراست تشدد کا اعتراف
2 دن تک آفتاب کے حوالے سے لاعلم رہنے کے بعد ان کے اہلخانہ کو منگل کی صبح 8 بجے قریب علم ہوا کہ ان کی لاش جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے مردہ خانے میں موجود ہے۔ سلیمہ نے بتایا، 'وہ اُس وقت تک مر چکا تھا، مجھے بتایا گیا کہ اس کا انتقال ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوا، یہ سچ نہیں ہے، جب میرے بیٹے کو لے جایا گیا تو اُس وقت اسے ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ہمیں پوسٹ مارٹم کے بعد کفن میں لپٹی میت وصول ہوئی، جسے کھولنے میں ایک گھنٹہ لگا اور میں نے اپنے بیٹے کی تشدد زدہ لاش دیکھی'۔
منگل کی شام نمائش پر احمد کی نماز جنازہ کے موقع پر موجود ان کے سالے محمد عظیم نے بتایا، 'اس کے دانت اور ناخن غائب تھے اور اس کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے، ہمیں کفن کھولنے میں وقت لگا کیوں کہ ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ موت سے پہلے اس کے ساتھ کیا کیا ہوا، اور یہ تشدد ہی تھا، جس کی وجہ سے دوران حراست ان کی ہلاکت ہوئی۔'
بدھ کی دوپہر کچھ رینجرز اہلکاروں کی ملازمت سے برطرفی کی خبریں گردش کرنے لگیں، جس کی بعدازاں رینجرز ترجمان کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز سے بھی تصدیق ہوگئی، تاہم سلیمہ کا کہنا تھا، 'یہ کافی نہیں ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ بھی وہی سب کچھ کیا جانا چاہیے، جنھوں نے دوران حراست میرے بیٹے پر تشدد کیا، اُس کے ساتھ یہ سب اس لیے ہوا کیوں کہ وہ مہاجر تھا اور اس حقیقت کے علاوہ اس سفاکیت کی اور کوئی وجہ یا جواز نہیں ہے۔'
یہ خبر 5 مئی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں