نقطہ نظر

ڈپریشن اور 'ناشکرے پن' میں فرق

کلینکل یا طبی ڈپریشن کی تکلیف اپنی نعمتوں پر شکر ادا کرنے یا مذہبی بننے سے ٹھیک نہیں ہو سکتی۔

کچھ دن پہلے میں نے پرانے دوستوں کی ری یونین میں شرکت کی۔ ہم سب ساتھ بیٹھے اور اپنی ذاتی اور پروفیشنل زندگیوں کے بارے میں باتیں کرنے لگے، اور یہ کہ ہمیں ہمارے جیون ساتھی ملے بھی یا نہیں، یا ہم والدین بنے یا نہیں۔ ہم نے اپنی کامیابیوں اور ذاتی جدوجہد کے بارے میں بھی تبادلہ کیا۔

اتنے میں میری ایک قریبی دوست نے بتایا کہ وہ کچھ عرصے سے ڈپریشن میں مبتلا ہیں، اور اس سے ان کی روز مرہ کے کاموں کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔

میری ایک دوسری دوست نے فوراً کہا:

''یار تمہیں تو شکر گذار ہونا چاہیے کہ خدا نے تمہیں اچھی ملازمت، ایک پیار کرنے والا شوہر اور ایک خوشحال خاندان عطا کیا ہے! بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو تمہاری طرح اتنے خوش قسمت نہیں!''

میری دوست نے اسے دیکھا اور بڑبڑائی کہ وہ اس پر شکر گذار ہے اور یکایک گفتگو کا موضوع بدل گیا۔

میں نے کئی مرتبہ نیک نیت لوگوں کو ڈپریشن میں مبتلا لوگوں کو اپنی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔

پڑھیے: 'گھبراہٹ' کی وجوہات، علامات اور علاج

ہماری زندگی میں موجود ہر مثبت چیز کے لیے شکر کرنے کی 'نیکی' ہمارے معاشرے میں گہرائی تک بسی ہوئی ہے، کئی لوگ اس چیز کو مذہبی سانچے میں ڈھال کر اس کی موزونیت پیش کرتے ہیں۔ مگر یہی چیز ہمیں ایک سخت گیر دوراہے پر لا کھڑا کرتی ہے:

یا تو آپ ایک شکر گذار ہیں یا بالکل بھی نہیں ہیں۔

اس نکتہء نظر کو چیلنج کرنا ناممکن سا لگتا ہے، خاص طور پر جب مذہب کی بات بیچ میں آجائے۔ جب لوگ بار بار اظہارِ تشکر کے لیے مذہب کو بیچ میں لاتے ہیں، تو کوئی کس طرح ان کی بات سے اختلاف کر سکتا ہے، ڈپریشن سے اپنی جدوجہد کے بارے میں بات کرنا تو دور کی بات ہے۔ بار بار کہا جاتا ہے کہ شکر کا راستہ ہی ایمان کا راستہ ہے۔

شاید کچھ لوگوں کے نزدیک اس میں فرق نہیں ہے، اور روحانی یا رسمی طور پر مذہبی ہونا ذہنی صحت پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ یہ بات کچھ لوگوں، یا شاید کئی لوگوں کے لیے صحیح بھی ہو سکتی ہے۔

تاہم اس وجہ سے ہم لوگ دوسروں کے مسائل کو چھوٹا یا معمولی سمجھنے لگتے ہیں، اور ہر مسئلے کا حل صرف شکر گذاری کو قرار دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔


مجھے اس بات سے بہت گھبراہٹ ہوتی ہے اور غصہ بھی آتا ہے جب لوگ ڈپریشن جیسے ذہنی صحت کے مسئلے کو ناشکری قرار دیتے ہیں۔ اس سے تکلیف میں مبتلا شخص کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔


یہ بات میں ڈپریشن کے اپنے ذاتی تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے کہہ رہی ہوں۔ مجھے اکثر غیر دوستانہ اور بے رحمانہ نصیحتیں موصول ہوتیں۔

1: اپنی نعمتوں کو گنا کرو

2: ہر روز پابندی سے نماز پڑھو۔

3: اپنی روح کو سکون پہنچانے کے لیے مخصوص آیتوں کی تلاوت کیا کرو۔

مزید پڑھیے: ڈپریشن سے متعلق 10 غلط فہمیاں

میں ایک باعمل مسلمان ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ میں ٹھیک ہونے کے لیے دعا کرسکتی ہوں۔ لیکن کیونکہ مجھے ڈپریشن ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ میرا ایمان کمزور ہے اور نہ ہی یہ مطلب ہے کہ مجھے زیادہ عبادت کی ضرورت ہے۔


اب کئی مختلف اقسام کے علاج اور تھیریپیز دستیاب ہیں، مگر ڈپریشن کی جانب سہل پسندانہ رویہ، جیسے علامات کو رد کرتے ہوئے علاج کی کامیابی کو کسی شخص کی ذاتی مذہبیت پر منحصر قرار دینا، خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔


بدترین صورت میں شدید ڈپریشن خود کشی کی جانب راغب کرسکتا ہے۔ کلینکل یا طبی ڈپریشن کی تکلیف دن میں ایک چاکلیٹ کھانے، فلم دیکھنے، شادی کرنے یا مذہبی بننے سے ٹھیک نہیں ہوتی۔

بہت سارے لوگوں کے لیے ڈپریشن زندگی بھر کا تجربہ بھی بن سکتا ہے جنہیں ہر روز اس سے نمٹنا پڑتا ہے۔

اچھے دنوں میں دنیا قابل برداشت اور رہنے کے قابل بھی لگتی ہے، مگر کبھی کبھی آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ کو کسی بلیک ہول نے نگل لیا ہو اور آپ دنیا سے لاتعلق سے ہوجاتے ہیں۔ یہ ہر روز کا چیلینج ہوتا ہے اور یہ ان کے لیے بھی مشکل ہوجاتا ہے جن کے ساتھ آپ رہتے ہیں۔

ڈپریشن نے دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ میرے خاندان کی کئی تقریبات بھی برباد کر دیں؛ اس وقت میرے گھر والے بھی میرے برتاؤ کو سمجھ نہیں پاتے تھے کہ میں ایسا برتاؤ کیوں کر رہی ہوں۔ انہیں لگتا تھا کہ شاید انہوں نے مجھے ناراض کر دیا ہے۔

جانیے: ڈپریشن کی چند عام علامات

ایسے بھی دن تھے جب میں سارا دن اپنے کمرے میں بیٹھی پرانی چیزوں کو تکتی رہتی تھی یا ہمارے ایک پرانے ٹی وی کی آواز اتنی بڑھا دیتی تھی کہ جس میں تمام آوازیں دب جاتی تھیں۔

ایک وقت آیا جب میرے اطراف کے لوگ کافی پریشانی اور الجھن کا شکار ہو گئے، میں پوری توجہ سے کوئی کام کر رہی ہوتی، اور پھر اچانک سے مجھے محسوس ہوتا کہ جیسے میرے گرد و پیش نے مجھے نگل لیا ہو۔

پھر کچھ ایسی ظاہری علامات تھیں جن میں سے ہر ایک کو میں نے سمجھنے کی کوشش کی لیکن ان کے آپس میں تعلق کو سمجھنے میں ناکام رہی: ان علامات میں بار بار شدت سے رونا، راتوں کو نیند نہ آنا، ہائی بلڈ پریشر اور خود پر مسلسل تنقید شامل تھیں۔

اس تمام صورتحال کے دوران میں اپنی اسلامی شناخت سے جڑی رہی تھی، مگر اس طرح میرے سنگین احساسات ختم نہ ہوئے۔

آئیے پھر بات کرتے ہیں شکر گذاری کی، آیا میں شکر گذار ہوں یا نہیں، یہ میرا اور خدا کے درمیان کا معاملہ ہے۔ میں کسی دوسرے کو یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ مجھے میرے اور خدا کے درمیان تعلق کے بارے میں ہدایات دے۔

ایمانداری کے ساتھ کہوں تو میں خود کو بہت عاجز اور خوش قسمت سمجھتی ہوں کیونکہ میرے پاس سہارا دینے والا خاندان اور دوست ہیں، اور یہ کہ میں اب بھی ذہنی صحت کے مسئلے، جس میں مبتلا ہوں، اور مذہب کے ساتھ میرے ذاتی تعلق کے درمیان فرق کرنے جتنا دماغ ضرور رکھتی ہوں۔

میں ان نیک نیت لوگوں کی شکر گذار ہونے کی نصحیتوں کو بالکل پسند نہیں کرتی۔

کاش سب کچھ اتنا آسان ہوتا۔

پڑھیے: خودکشی کا رجحان: علامات پہچانیے

جیسے ہی ہم دوستوں کی ملاقات اختتام کو پہنچی تو باری باری ہم ایک دوسرے سے گلے ملے اور الوداع کہا۔ آخر میں ٹیبل پر میں اور ڈپریشن سے نبرد آزما میری دوست رہ گئے۔

ایک چھوٹے سے وقفے کے بعد میں نے پوری ہمت جمع کی، اور اس سے اس کی جدوجہد کے بارے میں پوچھا۔

اس نے میری طرف دیکھا، مسکرائی اور 'ناشکری' کے طعنے کے خوف کے بغیر سب بتا دیا۔


کیا آپ بھی کلینیکل ڈپریشن یا ذہنی صحت سے متعلق کسی مسئلے کا شکار ہیں؟ کیا آپ ذہنی صحت کے ماہر ہیں؟ اپنی کہانی قارئین تک پہنچانے کے لیے ہمیں blog@dawn.com پر ای میل کیجیے۔


متعلقہ مضامین

'جن کو عشق ہو گیا ہے'

میں خود کو پاگل نہیں کہلوانا چاہتی تھی

خودکشی باعثِ بدنامی کیوں؟

ثنا رضوی

ثنا رضوی پی ایچ ڈی کر رہی ہیں اور ان کی ریسرچ دلچسپیوں میں ریسرچ ایتھکس، فیمنسٹ ریسرچ اور پرائمری، سیکنڈری اور ہائیر ایجوکیشن کے دوران معذور بچوں کے تجربات، گھر- اسکول کے تعلقات، نسل پرستی اور پسماندہ برادریوں پر تحقیق شامل ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔